پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما و سینیٹ میں پارلیمانی لیڈر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ عدلیہ کی حدود کے تجاوز کی وجہ سے آئین کی بہت سی شقیں مفلوج ہوگئیں، پارلیمنٹ کی قانون سازی کی حدود پر کوئی قدغن نہیں لگائی جاسکتی۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے کو 2 ماہ گزر گئے لیکن ہماری اپیلیں سماعت کے لیے مقرر نہیں کی جارہیں، جب آپ آئین کی پاسداری نہ کریں تو ہم کہاں جائیں؟
یہ بھی پڑھیں: بغیر مانگے مخصوص نشستیں نہیں دی جاسکتیں، الیکشن ایکٹ ترمیمی بل قومی اسمبلی میں پیش
انہوں نے کہا کہ آئین میں ترمیم لمبا پراسیس ہے، آئینی ترمیمی بل کو وزارت قانون دیکھتی ہے، پھر وہ اسٹیڈنگ کمیٹی کے پاس جاتا ہے، پھر ایوانوں میں جاتا ہے جہاں وہ پاس ہوتا ہے۔
کیا ججز پیغمبر ہیں جن سے غلطی سرزد نہیں ہوسکتی
انہوں نے کہا کہ اتنے لمبے عمل کے بعد پارلیمنٹ کے منظور کیے گئے قانون کو ایک، 2 یا 8 ججز کہتے ہیں کہ یہ آئین کے خلاف ہے۔
عرفان صدیقی نے کہا کہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عدالت کا کوئی بینچ غلطی کرسکتا ہے یا نہیں کرسکتا؟ کیا عدالتوں کے ججز پارلیمان کی طرح غلطی کرسکتے ہیں یا نعوذ باللہ وہ پیغمبروں کا قبیلہ ہے جو غلطی نہیں کرسکتا؟
یہ بھی پڑھیں: پیپلزپارٹی اور ہم اپنا اپنا مسودہ بنا رہے ہیں، چاہتے ہیں آئینی ترمیم پر اتفاق رائے ہوجائے، مولانا فضل الرحمان
ان کا کہنا تھا کہ بار بار الیکشن ایکٹ 2017 کے قانون کو توڑا گیا ہے، اگر ہم کوئی غلطی کرتے ہیں تو عدلیہ اس کی اصلاح کردیتی ہے لیکن اگر عدلیہ کوئی غلط فیصلہ کردے جو آئین سے براہ راست متصادم ہوتو اس کے محرکات و اسباب کیا تھے، وہ مکمل انصاف اور ضرورت کا نظریہ اس غلط فیصلے کو کون ٹھیک کرے گا؟ بغیرکسی تفرقہ بازی کے اس سوال کا جواب تلاش کیا جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ آئین کہتا ہے کہ اگر کوئی آزاد امیدوار منتخب ہوکر ایوان میں آتا ہے تو اسے 3 دن کے اندر کسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنی ہوگی، تاکہ وہ اسمبلی میں جانے سے قبل فیصلہ کرلے اور اسمبلی میں ہارس ٹریڈنگ نہ ہو کہ اس کو ووٹ دو، اُس کو ووٹ دو۔
آپ اس آئینی شق کو آپ توڑ دیتے ہیں
عرفان صدیقی نے کہا کہ 80 کے قریب آزاد امیدوار منتخب ہوئے جو باشعور تھے، انہوں نے اپنی مرضی سے سنی اتحاد کونسل جوائن کی، اب آئین کے مطابق یہ 80 آزاد امیدوار 5 سال تک سنی اتحاد کونسل میں ہی رہ سکتے ہیں، آپ اس آئینی شق کو آپ توڑ دیتے ہیں۔
’آپ ان پنچھیوں کو نہ صرف باہر نکالتے ہو بلکہ انہیں یہ بھی کہتے ہو کہ ادھر بھی نہیں جانا، ادھر بھی نہیں جانا بلکہ پی ٹی آئی کے آشیانے میں جا کے بیٹھ جانا ہے، یہ کون سا آئین، قانون اور ضابطہ ہے، جب آئین 3 دن کا کہتا ہے تو آپ 15 دن کہاں سے لے آئے۔‘
کسی ایک مارشل لا کے سامنے ہماری عدلیہ کھڑی نہیں ہوئی
انہوں نے کہا کہ ہماری اپیلیں سماعت کے لیے نہیں لگ رہیں، ہم نے آئین کی پاسداری کا حلف اٹھایا ہے، آپ نے بھی اٹھایا ہے۔ عرفان صدیقی نے کہا کہ عدالتی فیصلے سے مسئلہ حل ہونے کے بجائے پیچیدہ ہوگیا ہے، 4 مارشل لا لگے، کسی ایک مارشل لا کے سامنے ہماری عدلیہ کھڑی نہیں ہوئی۔
ان کا کہنا تھا ہم جب آئین کی پاسداری نہ کریں تو آپ ہماری گرفت کر لیتے ہیں لیکن آپ جب آئین کی پاسداری نہ کریں تو بتائیں ہم کہاں جائیں، جب پارلیمنٹ کے سامنے 2 راستے ہوں کہ آئین کی پیروی کریں یا غیر آئینی عدالتی فیصلے کی پیروی کریں تو ہم کیا کریں، ہمارے لیے مسئلہ کھڑا کردیا ہے کہ ہم کدھر جائیں۔
جسٹس منصور علی شاہ کو فیض حمید کی سطح پر نہ گھسیٹیں
عرفان صدیقی نے مزید کہا کہ منصور علی شاہ کا بہت اچھا ٹریک ریکارڈ ہے اور ہم سب ان کی تکریم کرتے ہیں،ہم سب چاہتے ہیں کہ جب ان کو موقع ملے تو شاندار روایات قائم کریں لیکن اس شخص کو اپنی پسندیدگی کا داغ اس کے ماتھے پر لگا کر اس کے مستقبل کو خراب کرتے ہو، آپ کیوں اسے فیض حمید بنانا چاہتے ہیں، اسے فیض حمید کی سطح پر نہ گھسیٹیں۔
انہوں نے کہا کہ آپ نے فیض حمید کو چیف بنانا تھا وہ بنا یا نہیں بنا لیکن اب آپ منصور علی شاہ کو چیف بنانا چاہتے ہیں، آپ کے کہنے سے نہیں بنیں گے، وہ اپنے میرٹ اور استحقاق پر بنیں گے لہٰذا اس طرح کی باتیں نہ کریں۔