سپریم کورٹ  کے 3 رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف قومی اسمبلی میں قرارداد منظور

جمعرات 6 اپریل 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

 سپریم کورٹ  کے 3 رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف  قومی اسمبلی میں قرارداد منظور کرلی گئی ہے۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ  ایوان سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ کے اقلیتی فیصلے کو مسترد کرتا ہے اور سپریم کورٹ کے 4 ججز کے اکثریتی فیصلےکی بھرپور تائید کرتا ہے۔ اس قراداد میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ  سپریم کورٹ کے اکثریتی ججز کے فیصلے پر عملدرآمد کیا جائے ۔ قرارداد بلوچستان عوامی پارٹی کے پارلیمانی لیڈر میر خالد مگسی نے پیش کی۔

قومی اسمبلی کا اجلاس

قومی اسمبلی کا اجلاس سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کی زیر صدارت جاری ہے۔ اجلاس میں وزیراعظم شہباز شریف، وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ، پاکستان پیپلز پارٹی، جمیعت علمائے اسلام، ایم کیو ایم کے رہنماؤں سمیت پاکستان تحریک انصاف کے منحرف ارکان نے بھی شرکت کی۔

قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران میں بلوچستان سے رکن قومی اسمبلی خالد مگسی نے سپریم کورٹ کے 3رکنی بینچ کا فیصلہ مسترد کرنے کی قرارداد ایوان میں پیش کی جسے کثرت سے منظور کرلیا گیا، اس موقع پر پی ٹی آئی رکن اسمبلی محسن خان لغاری نے قرار داد کی مخالفت کرتے کوئے کہا کہ ایک قرارداد میں ایک معاملہ ہو سکتا ہے جبکہ اس قرارداد میں 3سے 4مطالبات رکھے ہیں جو کہ آئین کے خلاف ہے۔

وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے ارکان اسمبلی کی نشستوں پر جا کر قرارداد پر دستخط کرائے۔

قرارداد کا متن

قومی اسمبلی میں پیش کی جانے والی قرار داد کا متن مندرجہ ذیل ہے:

یہ ایوان منظور کردہ قرار داد میں از خود نوٹس کیس میں سپریم کورٹ کے 4 جج صاحبان کے اکثریتی فیصلے کی تائید کرتا ہے. ایوان نے اس پر عمل درآمد اور اعلی عدلیہ سے سیاسی وانتظامی امور میں بے جا مداخلت سے گریز کا مطالبہ کیا تھا، اکثر حلقوں نے بھی فل کورٹ کی تشکیل کا مطالبہ کیا تھا، لیکن اِسے منظور نہیں کیا گیا، نہ ہی ایک کے سوا دیگر سیاسی جماعتوں کا موقف سنا گیا ۔

پارلیمنٹ کی اس واضح قرارداد اور سپریم کورٹ کے 4 جج صاحبان کے اکثریتی فیصلے کو مکمل نظر انداز کرتے ہوئے 3رکنی مخصوص بینچ نے اقلیتی رائے مسلط کردی۔

قومی اسمبلی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ کے خلاف منظور کردہ قرارداد

سپریم کورٹ کی اپنی روایات، نظریے اور طریقہ کار کی بھی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ اکثریت پر اقلیت کو مسلط کردیا گیا ہے، 3رکنی اقلیتی بینچ کے فیصلے کو پارلیمان مسترد کرتی ہے اور آئین وقانون کے مطابق اکثریتی بینچ کے فیصلے کو نافذالعمل قرار دیتی ہے۔

یہ اجلاس آئین پاکستان کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت دائر مقدمات کو فل کورٹ میٹنگ کے فیصلوں تک سماعت کے لئے مقرر نہ کرنے کے عدالت عظمی کے 3رکنی بینچ کے فیصلے کی تائید کرتا ہے۔

ایوان ایگزیکٹو سرکلر کے ذریعے اس پر عملدرآمد روکنے کے اقدام کوگہری تشویش کی نظر سے دیکھتا ہے۔ عدالتی فیصلے کو عجلت میں ایک اورمتنازعہ بینچ کے روبرو سماعت کے لیے مقرر کرنے اورچند منٹوں میں اس پر فوری فیصلے پر بھی شدید تحفظات کا اظہارکرتا ہے۔

ایسا عمل سپریم کورٹ کی روایات اور نظائر کے صریحاً خلاف ہے لہذا یہ ناقابل قبول ہے۔ ایوان سیاسی معاملات میں بے جا عدالتی مداخلت پر تشویش کا اظہار کرتا ہے۔ حالیہ اقلیتی فیصلہ ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کررہا ہے۔ حالیہ فیصلے نے وفاقی اکائیوں میں تقسیم کی راہ ہموار کردی ہے۔

ایوان ملک بھر میں ایک ہی وقت پرعام انتخابات کرانے کے انعقاد کو ہی تمام مسائل کاحل سمجھتا ہے۔ یہ ایوان 3رکنی بینچ کا اقلیتی فیصلہ مسترد کرتے ہوئے وزیراعظم اور کابینہ کوپابند کرتا ہے کہ اِس خلاف آئین وقانون فیصلہ پر عمل نہ کیا جائے۔

ایوان دستور کے آرٹیکل 63 اے کی غلط تشریح اوراسے عدالت عظمی کے فیصلے کے ذریعے ازسر نو تحریر کئے جانے پر شدید تشویش کا اظہار کرتا ہے۔

قومی اسمبلی نے خالد مگسی کی قرار داد کثرت رائے سے منظور کر لی تاہم پاکستان تحریک انصاف کے محسن لغاری نے قرارداد کی مخالفت کی۔

محسن لغاری نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ کیا ہم توہین عدالت کے مرتکب ہو رہے ہیں اور ایک خطرناک راستے پر چل رہے ہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا ہم سپریم کورٹ سے جنگ کرنا چاہتے ہیں، اگر ہاں تو یہ جنگ بہت خطرناک ہو گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسی قراردادیں جوش کی بجائے ہوش سے منظور کی جائیں، سپریم کورٹ نے 90 دن کے اندر الیکشن کا فیصلہ کیا جس پر ہم تنقید کر رہے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ایوان کی 90 فیصد کارروائی عمران خان پر تنقید پر مبنی ہوتی ہے اور وہ ایوان میں نہ ہوتے ہوئے بھی اعصاب پر سوار ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp