سپریم کورٹ نے سرکاری ملازمین کے بچوں کو کوٹے پر ملازمت دینے سے متعلق کیس کی سماعت مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔
سرکاری ملازمین کے بچوں کو کوٹے پر ملازمت دینے سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے کی، عدالت نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد سرکاری ملازمین کے بچوں کونوکریاں دینے کے حوالے سے پالیسی پر فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:سپریم کورٹ کا یوٹیوب چینل ہیک ہوگیا، ہیکرز نے کیا لکھا؟
ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ پشاور ہائیکورٹ کے حکم کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل زیر سماعت ہے، ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ صوبائی حکومت کے سروس رولز میں ترمیم کرکے بچوں کا کوٹہ ختم کردیا گیا ہے، ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ کہ صوبے میں بچوں کو نوکری دینے کا قانون موجود ہے۔
خیبرپختونخوا کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نےسرکاری ملازمین کے بچوں کو نوکری دینے کی پالیسی کے خلاف موقف اختیار کرتے ہوئے بتایا کہ خیبرپختونخوا میں پالیسی موجود ہے جو نہیں ہونی چاہیے، ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان کا کہنا تھا کہ دوران سروس مرنے والے کو نوکری دینے کی پالیسی ہے۔
مزید پڑھیں: پارلیمنٹ کا قانون سازی کا اختیار آئین کے تابع ہے، سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ سرکاری ملازمین کے بچوں کو نوکریاں دینے کا کوئی قانون یا منطق بتادیں، ہر حکومتی پالیسی کی کوئی منطق تو ہونی چاہیے، کل چیف جسٹس کے بچوں کو سرکاری نوکریاں دینے کی پالیسی بنا دیں تو پھر کیا ہوگا۔
’مجھے سیکشن آفیسر کی جواب دینے کی بجائے قانونی بات کریں، ریٹائرڈ ہونے والوں کو پینشن تو ملتی ہے، پینشن کی باوجود یہ ٹھیکہ لینے کی کیا ضرورت ہے۔‘
مزید پڑھیں:سپریم کورٹ نے خام مال پر ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کرنے کے خلاف درخواست خارج کیوں کی؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ لوگ کہتے ہیں میرے بچے کو نوکری لگا دیں، اب 10-20 سال ساتھ نوکری کرنے والے انکار کیسے کریں گے، تقرری کے ساتھ دس ایڈیشنل نمبر بھی لگا دیئے گئے، آئین کے 27 کے تحت تمام شہری موجود ہیں۔
’یہ تو ملازمین کے لیے کھانچہ بنا دیا گیا ہے، ایسے تو کل باہر سے کوئی نوکری حاصل نہیں کر سکے گا، اب کہیں گے ہم نوکریاں دے رہے تھے سپریم کورٹ نے روک دیا۔‘