وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ معاشی اصلاحات کے لیے ٹیکس نیٹ سے باہر موجود شعبوں کو دائرہ کارمیں لانا ہوگا، تنخواہ دار اور مینوفیکچرنگ طبقے پراضافی بوجھ کو کم کیا جائے گا۔
نیویارک میں غیرملکی میڈیا کو دیے گئے انٹرویو میں انہوں نے کہاکہ ریٹیلرز، ہول سیلرز، زراعت اورپراپرٹی شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہوگا، گزشتہ برس محصولات میں 29 فیصد اضافے کے باوجود ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح 9 فیصد رہی ہے، یہ شرح کسی بھی ملک کی معیشت کواستحکام نہیں دلا سکتی۔
یہ بھی پڑھیں آئی ایم ایف پروگرام کی منظوری حکومتی پالیسیوں کی توثیق، ڈھانچہ جاتی اصلاحات کے لیے پرعزم ہیں، وزیر خزانہ
انہوں نے کہاکہ حکومت اب نان فائلرکی اصطلاح ختم کرنے جارہی ہے، ٹیکس نہ دینے والوں پرایسی پابندیاں لگائیں گے کہ وہ بہت سے کام نہیں کرسکیں گے۔
وزیر خزانہ نے کہاکہ حکومت کے پاس لوگوں کے طرزِ زندگی کا ڈیٹا موجود ہے، لوگوں کے پاس کتنی گاڑیاں، بیرونِ ممالک سفر اور دیگر اخراجات کیا ہیں، سب کا ریکارڈ موجود ہے۔
محمد اورنگزیب نے کہاکہ اس ڈیٹا کو دیکھتے ہوئے ایف بی آرٹیکس ادا نہ کرنے والوں کوحراست میں لیے بغیر انہیں ٹیکس نیٹ میں لائے گا۔
’امریکا کی مدد اور چین کا تعاون آئی ایم ایف پروگرام کی منظوری کی وجہ بنا‘
انٹرویو کے دوران انہوں نے کہاکہ امریکا کی مدد اور چین کا تعاون آئی ایم ایف پروگرام کی منظوری کی وجہ بنا۔
نیویارک میں وائس آف امریکا کو دیے گئے انٹرویو میں انہوں نے کہاکہ نئے قرض پروگرام کی منظوری میں امریکا نے مدد کی، جبکہ چین کے تعاون سے ہی پروگرام کا حصول ممکن ہوسکا ہے۔
محمد اورنگزیب نے کہاکہ آئی ایم ایف نے پاکستان کے لیے7 ارب ڈالر قرض پروگرام کی منظوری دی ہے، اور یہ پروگرام 37 ماہ پر مشتمل ہے۔
انہوں نے کہاکہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام ثابت ہو تو معیشت میں بنیادی اصلاحات لانا ہوں گی، آئی ایم ایف کے نئے پروگرام کے حصول میں دوست ممالک نے مالیاتی ضرورت کو پورا کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
’ملکی معیشت کوبرآمدی معیشت میں تبدیل کرنے کے لیے معاشی ڈھانچے میں تبدیلیاں ناگزیرہیں‘
وزیر خزانہ نے کہاکہ جب مجموعی ترقی 4 فیصد سے اوپرجاتی ہے تو ترسیلاتِ زرمیں کمی ہوجاتی ہے، ملکی معیشت کوبرآمدی معیشت میں تبدیل کرنے کے لیے معاشی ڈھانچے میں تبدیلیاں ناگزیرہیں۔
انہوں نے کہاکہ معاشی ڈھانچے میں تبدیلی سے ملک کوآئندہ 3 سال میں آگے لے کر جاسکیں گے، حکومت کے پاس اب معاشی اصلاحات کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
انہوں نے کہاکہ امریکا ماضی میں بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کرتا رہا ہے اور امید ہے کہ مستقبل میں اس میں مزید اضافہ ہوگا، دوست ممالک سے جو قرض لیا ہے اس میں چین کا حجم سب سے زیادہ ہے۔
وزیر خزانہ نے کہاکہ امریکا آئی ایم ایف کا سب سے بڑا حصہ دار ہے، ایگزیکٹو بورڈ اجلاس میں واشنگٹن کی پاکستان کے لیے قرض پروگرام کی حمایت کو سراہتے ہیں۔
جی ایس پی پلس پروگرام پاکستانی برآمدات کے لیے لائف لائن کی حیثیت رکھتا ہے
انہوں نے کہاکہ جی ایس پی پلس پروگرام پاکستانی برآمدات کے لیے لائف لائن کی حیثیت رکھتا ہے، چین کے ساتھ سی پیک فیز ٹو پاکستان کی صنعت کی بحالی کے لیے اہم ہے۔
انہوں نے کہاکہ آئی ایم ایف پروگرام میں تاخیر نہیں ہوئی، یہ پروگرام مرحلہ وار عمل کے نتیجے میں منظور کیا گیا ہے، ماضی کے پروگراموں پر عمل نہ کرنے کے باعث ساکھ اور اعتماد کا فقدان ہے۔
یہ بھی پڑھیں آئی ایم ایف نے پاکستان کے لیے 7 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کی منظوری دیدی
وزیر خزانہ نے کہاکہ موجودہ حکومت پرعزم ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کے مطابق معاشی اصلاحات لانی ہیں، گزشتہ مالی سال کے اختتام پر روپے کی قدر میں استحکام آیا ہے، زرمبادلہ کے ذخائر بڑھے ہیں جس کے نتیجے میں مہنگائی میں بتدریج کمی واقع ہوئی ہے۔