‘جمہوری حکومتیں اکثریت کی نہیں، جمعیت کی نمائندہ ہوتی ہیں’

ہفتہ 28 ستمبر 2024
author image

سجاد بلوچ

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

امرتیا سین بھارت سے تعلق رکھنے والے معروف معیشت دان اور فلسفی ہیں جنہیں 1998 میں نوبیل انعام بھی مل چکا ہے۔ معیشت اور رائج جمہوری طرز حکمرانی کے متعلق ان کی آرا کو خاصی اہمیت دی جاتی ہے۔ انہوں نے انتخابات کے مروجہ طریقہ کار کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور اس پر اپنے مضبوط دلائل پیش کیے۔ وہ صرف پارلیمانی نظام ہی نہیں بلکہ صدارتی نظام کے طریقہ انتخاب کے نقائص بھی اجاگر کرتے ہیں۔ وہ کیمبرج میں معاشیات میں پی ایچ ڈی کے طالب علم تھے کہ اسی دوران کلکتہ میں جاداوپر یونیورسٹی میں شعبہ معاشیات کے کم عمر ترین سربراہ مقرر ہوئے۔ اسی دوران وہ ٹرنٹی کالج کے فیلو شپ پرائز کے لیے منتخب ہوئے تو انہوں نے فلسفہ پڑھنے کا فیصلہ کیا۔ سین بتاتے ہیں کہ میرے لیے فلسفے میں علم کی وسعت زیادہ اہم تھی اور وہ بھی محض اس لیے نہیں کہ معاشیات کے کچھ دلچسپی کے علاقے فلسفیانہ مباحث کے قریب ہیں بلکہ یہ بھی کہ میں نے فلسفیانہ مطالعے کو خود اپنے اندر بہت مفید پایا۔

مارچ 2017 میں ایک معتبر روزنامے کو دیے گئے انٹرویو کے دوران انہوں نے بھارت میں 2014 میں منعقد ہونے والے عام انتخابات کے حوالے سے جمعیت کی حکومت اور اکثریت کی فتح کے درمیان فرق بیان کرنے کی کوشش کی ہے، بالکل اسی طرح جس طرح وہ ریاست اور حکومت کے فرق کو واضح کرتے رہے ہیں۔

سین کے نزدیک زمام اقتدار سنبھالنے والے اکثریت کی نمائندگی نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں، ’’حق رائے دہی کے عمل کی پیچیدگیوں کا شعور بہت ہی کم ہے۔ میرا مطلب ہے کہ آج کل زیادہ تر حکومتیں اقلیتی حکومتیں ہیں۔ بی جے پی نے 31 فیصد ووٹ لیے۔ اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر ان کے ووٹ 39 فیصد ہو گئے۔ یہ ایک اقلیت ہے۔ حتیٰ کہ اکثریت کی حامل کسی حکومت کے لیے بھی کسی فرد کو یہ کہنا کافی مشکل ہوتا ہے کہ ’ہم اس لیے آپ کو خیالات کے اظہار کی اجازت نہیں دے سکتے کیونکہ آپ کے خیالات قوم مخالف ہیں‘ لیکن یہی بات ایک اقلیتی حکومت کے ساتھ مضحکہ خیز ہو جاتی ہے اور اس کے ساتھ ہی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں اکثریت اور جمعیت میں امتیاز کرنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے۔ کیا یہ اس انتخابی عمل کو سرانجام دینے کا مناسب طریقہ ہے؟ اس طرح کے کئی مسائل ہیں اور ہمیں اس کا گہرا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ بھارت میں بھی ہم یہ کر سکتے ہیں۔ ہم انگریز کے ایک نوآبادیاتی نظام کو اپنائے ہوئے ہیں، جس کے مطابق ایک حلقے میں زیادہ ووٹ لینے والا ہی کامیاب ٹھہرتا ہے۔ یہاں الیکشن میں اکثریت کی نہیں جمعیت کی جیت ہوتی ہے، ہمیں اسے بدلنا ہو گا۔”

انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ “میرے ساتھی، ماہر معاشیات اور نوبل لاریٹ ایرک ماسکن نے لکھا ہے کہ ہمیں دیکھنا چاہیے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے کس طرح 17 ریپبلکن پرائمریز میں شکست کھائی اور کئی امیدواروں نے ٹرمپ کو دوبدو مقابلے میں شکست فاش سے دوچار کیا۔ یہ انتخابات جس طرح منعقد ہوتے ہیں اس میں کوئی خرابی ضرور ہے۔ ہم نے ان ابتدائی انتخابات اور امریکی کانگریس میں انہیں درست کرنے کے لیے مختلف تجاویز پیش کی ہیں۔ اب ایسا ہوتا ہے یا نہیں، یہ تو ہم نہیں جانتے لیکن کم از کم اس پر بحث توشروع ہوچکی ہے۔”

امرتیا سین جمہوری اقدار اور آزادی اظہار رائے کے بھرپور حامی ہیں، وہ جمہوریت کو اس کی اصل روح کے مطابق دیکھنا چاہتے ہیں، بتاتے ہیں کہ ’’جب ہم آزاد ہوئے اس وقت ایک قانون ساز اسمبلی تھی جہاں ہم کھلے دل و دماغ کے ساتھ حیران کن تبادلہ خیال کرتے تھے اور خوب بحث مباحثہ ہوتا تھا۔ ایسی کئی باتیں تھیں جن کے بارے میں ہم سوچتے تھے، لیکن کرتے نہیں تھے۔ ہمارے پاس امبیدکر جیسے لوگ تھے جو ممکنہ طور پر آئین بنانے والوں میں سب سے اہم آواز تھی، یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم کئی تضادات کو یہاں چھوڑتے ہیں، ہم اس گہری سماجی اور معاشی عدم مساوات کے ساتھ سماج میں سیاسی برابری حاصل کر رہے ہیں۔ اسے دوبارہ دیکھنا ہو گا۔ یہ مسائل یہیں رہتے ہیں۔ پچھلے 70 برس کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں ان معاملات پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔”

وہ مزید کہتے ہیں،’’جون سٹورٹ مل جمہوریت کو مباحثے کی حکومت کہتا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ اس تناظر میں انتخابی طریقہ کار کودوبارہ دیکھنا چاہیے اور یہ عوامی مباحثے کے بغیر ممکن نہیں اوراس بات کا ادراک کیے بغیر بھی ممکن نہیں کہ کچھ بہت زیادہ غلط ہونے جا رہا ہے۔ پہلے تو ان لوگوں کے ذہن میں ریاست اور حکومت کا مغالطہ، اکثریت کا مغالطہ اور خالص جمعیت کا اور عوام کے کردار کا مغالطہ ختم کرنا ہو گا، جو ہر 5 سال بعد ووٹ ڈالتے ہیں اور اپنے خیالات کے ذریعے متحرک طور پر جمہوری نظام کا حصہ بنتے ہیں۔”

امرتیا سین جموریت کو معاشرے میں رواج دینے کے لیے درس گاہوں کے اندر بحث مباحثے اور تحقیق کے بہت زیادہ قائل ہیں۔ وہ جمہوری نظام کو لاحق مسائل کا حل ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں، ’’سب سے اہم چیز اختلاف رائے کو برداشت کرنا اور اس کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ ایک حکومت ریاست نہیں ہے اور حکومت کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ کیا بات کرنی ہے اور کیا نہیں کرنی۔ حتیٰ کہ کشمیر کا مسئلہ بھی بحث کا موضوع ہونا چاہیے۔ آخر کار ہم ایک جمہوریہ ہیں۔ تو کیا جمہوریت کا استعمال یہ باتیں کرنے کے لیے کر رہے ہیں؟ ہم ان سوالات کی طرف توجہ دلا سکتے ہیں اور ان پر بحث کر سکتے ہیں۔ اٹھارویں صدی میں عوامی مکالمہ بہت عام تھا، ایڈم سمتھ، ڈیوڈ ہیوم، میری وولسٹون کرافٹ، جو تانیثیت کا بانی تھا اور شاید سب سے کم لائقِ توجہ سمجھا جانے والا روشن خیال مفکر۔ وہ سب عوامی گفتگو میں دلچسپی لیتے تھے اور اس کے بعد جون سٹوارٹ مل آیا، اس سب کو جمہوریت کے تصور میں شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر کوئی تجزیاتی یا شماریاتی پیچیدگیاں ہیں تو انہیں حل کرنا چاہیے، بجائے اس کے کہ انہیں گھورا جائے۔”

“میں جب دہلی کے معاشیات کے سکول میں پڑھا رہا تھا تو طالب علموں اور اساتذہ کے درمیان بہت گفتگو ہوتی تھی، ہمارے درمیان اختلافات بھی تھے۔ ہمارے پاس خوش قسمتی سے وائس چانسلر سی ڈی دیش مکھ تھے اور وہ خود اس لیے خوش قسمت تھے کہ اس وقت ایک نسبتاً تحمل اور برداشت والی حکومت تھی۔ ہم نے کئی نئے تصورات دیے جن میں سے زیادہ تر طالب علموں کی طرف سے آئے۔ ان طالب علموں میں سے اب زیادہ تر اساتذہ ہیں، جو سیاسی معاشی مباحث میں بڑا نام پیدا کرچکے ہیں، لیکن وہ خاموش نہیں رہتے تھے۔ دیکھیں، جب موقع ملتا ہے تو جاندار بحث ہوتی ہے! جمہوریت کا اگرکوئی مطلب ہے تو وہ یہی ہے کہ لوگوں کے ساتھ گفتگو کے نتیجے میں کوئی تبدیلی لانا۔ یہی وجہ ہے کہ اختلاف کی اجازت دینا اہم ہے؛ لوگوں کو ریاست مخالف سمجھ کر گرفتار نہ کرنا اہم ہے۔ یہ آزادیاں نہ صرف جمہوریت کے لیے بلکہ جدید دنیا میں کامیاب زندگی کے لیے دل اور روح کی طرح ہیں۔”

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سجاد بلوچ شاعر، ادیب، صحافی اور ترجمہ نگار ہیں۔ ان کی مطبوعات میں ہجرت و ہجر(شعری مجموعہ)، نوبیل انعام یافتگان کے انٹرویوز(تراجم)، جینے کے لیے(یوہوا کے ناول کا ترجمہ)، رات کی راہداری میں(شعری مجموعہ) شامل ہیں۔ کچھ مزید تراجم ،شعری مجموعے اور افسانوں کا مجموعہ زیر ترتیب ہیں۔پاکستان اور بھارت کے اہم ادبی جرائد اور معروف ویب سائٹس پر ان کی شاعری ،مضامین اور تراجم شائع ہوتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp