سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق جج اور عام لوگ اتحاد پارٹی کے چیئرمین جسٹس (ریٹائرڈ) وجیہہ الدین احمد نے کہا ہے کہ موجودہ اتحادی حکومت کے کام جاری رکھنے میں کوئی سیاسی قباحت نہیں ہے۔
وی نیوز کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے جسٹس (ریٹائرڈ) وجیہہ الدین احمد نے کہا کہ میں تو سیاسی استحکام کے حق میں اور انتشار کے خلاف ہوں اور سمجھتا ہوں کہ حکومتوں کی تبدیلی مروجہ آئینی طریقہ کار کے ذریعے ہی ہونی چاہیے۔
’لگتا ہے چیف جسٹس کو ایکسٹینشن مل جائے گی‘
چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی لیگیسی کیا ہو گی؟ اس سوال کے جواب میں جسٹس وجیہہ نے کہا کہ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ یعنی 26 اکتوبر آنے میں ابھی بہت دن ہیں اور ہنوز دلی دور است۔
انہوں نے کہا کہ جس طرح سیاسی جماعتوں کو اکٹھا کیا جا رہا ہے اور تیاریاں ہو رہی ہیں اس سے تو یہی لگ رہا ہے کہ آئینی ترمیم لانے کے لیے ایک اور بھرپور کوشش ہو گی اب دیکھنا یہ ہے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
’عدالت دیکھے ایسا کیا ہوا جو احتجاج ہو رہے ہیں‘
پاکستان تحریک انصاف کے وکلا کی جانب سے سپریم کورٹ کے سامنے احتجاج اور اعلیٰ عدلیہ پر احتجاجی نعروں کی صورت میں انصاف کے قتل کے الزامات کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے جسٹس وجیہہ الدین احمد نے کہا کہ میں نے کبھی اس بات کو پسند نہیں کیا کہ سپریم کورٹ کے بارے میں اس طرح کے احتجاج کیے جائیں لیکن کچھ معاملات کی بنیاد رکھ دی گئی جس پر عمارت تعمیر ہو رہی ہے۔
سپریم کورٹ کے خلاف احتجاج کے سلسلے پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت نے سنہ 1997 میں جس طرح سجاد علی شاہ کے خلاف کیا وہ ہماری تاریخ کا حصہ ہے لیکن عدالت کو اندرونی طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے کہ توازن سے ہٹ کر ایسا کیا کیا ہے جس کی وجہ سے احتجاج ہو رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عمر عطاء بندیال کے دور میں بہت سی سیاسی جماعتوں نے سپریم کورٹ کے سامنے احتجاج کیا اور کیا کیا تقریریں کیں لیکن عدلیہ کو اندرونی طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اس نے ایسا کیا مواد مہیا کیا ہے جس کی وجہ سے احتجاج ہو رہا ہے۔
عدلیہ کی تکریم میں کمی کے اسباب کیا ہیں؟
جسٹس وجیہہ نے کہا کہ یہ تو ایک حقیقت ہے کہ غلط فیصلے آتے رہے ہیں اور اب بھی آ رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسے موقعے بھی آئے کہ سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلوں کو سپریم کورٹ کی اقلیت نے رد کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ آپ کسی فیصلے سے اختلاف کر سکتے ہیں، اختلافی نوٹ بھی لکھ سکتے ہیں لیکن اس سارے معاملے کو سیاسی رنگ دینا اور ایک یا 2 ججوں کی جانب سے یہ کہا جانا کہ بقیہ تمام ججوں نے آئین کو ازسر نو لکھنے کی کوشش کی ہے یہ بالکل ویسی ہی صورتحال ہے کہ گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔
’مخصوص نشستوں کی تقسیم کا انحصار اگلے بینچ پر ہے‘
جسٹس وجیہہ نے کہا کہ مخصوص نشستوں والے معاملے میں 8 ججوں نے تو پی ٹی آئی کے حق میں فیصلہ دیا اور وہ پی ٹی آئی کو ملنی بھی چاہییں لیکن الیکشن کمیشن نے اس پر نظر ثانی اپیل دائر کر دی ہے، پھر الیکشن ایکٹ میں بھی ترمیم کر دی گئی ہے جو کہ چیلنج ہو چکی ہے لیکن سارا انحصار اس بات پر ہے کہ بینچ کیا بنتا ہے۔
’فیصلہ حق میں آئے تو واہ واہ، نہ آئے تو مسترد‘
جسٹس وجیہہ نے کہا کہ یہاں پر سیاسی جدوجہد رہی ہے اور جب کسی فریق کے حق میں فیصلہ آتا ہے تو وہ واہ واہ کرتے ہیں لیکن جب فیصلہ خلاف آئے تو نہ صرف اسے مسترد کیا جاتا ہے بلکہ بہت سی ایسی باتیں بھی کی جاتی ہیں جو کہ نہیں کہنی چاہییں۔
انہوں نے کہا کہ دنیا بھر کی عدالتیں غلط فیصلے بھی کرتی ہیں اور درست بھی لیکن آئین و قانون کی تشریح کی حوالے سے آخری لفظ وہاں کی سپریم کورٹ کا ہوتا ہے اور پھر ایک دفعہ غلط یا درست فیصلہ آجائے تو سب اس کو مانتے ہیں اسی میں جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کی کامیابی کا راز ہے۔
کیا ججوں کا سیاسی جھکاؤ ہونا چاہیے؟
جسٹس وجہیہ نے کہا کہ امریکا میں سپریم کورٹ کے تمام جج سیاسی بنیادوں پر مقرر ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکی صدر سپریم کورٹ کے جج کے لیے نام تجویز کرتا ہے جس کے بعد مجوزہ شخص وہاں کے سینیٹ کے سامنے پیش ہوتا ہے اور اس طرح سے اس کا تقرر ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس لحاظ سے وہاں تمام جج سیاسی بنیادوں پر مقرر ہوتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ صدر جارج بش اور الگور کے درمیان جب قضیہ اٹھا تو اس کا فیصلہ 5،4 کی اکثریت سے آیا۔
ان کا کہنا تھا کہ 5 جج ریپبلکن دور میں مقرر ہوتے تھے جبکہ 4 ڈیموکریٹ دور میں اور اسی تناسب سے ہی فیصلہ آیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ فیصلہ سیاسی بنیادوں پر آیا لیکن سب نے اس کو قبول کیا۔
ججوں کے سیاسی خیالات اور سیاسی ہمدردیاں ہونے میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن اگر آپ سیاسی لائن لیتے ہوئے حکومت یا اپوزیشن کو حمایت مہیا کر رہے ہیں اور اس کا مقصد آپ کی اپنی مدت ملازمت میں اضافہ، کوئی منفعت یا کسی خالی اسامی پر تقرری ہے تو یہ غلط بات ہے لیکن فی الحال ہماری سپریم کورٹ میں یہی ہو رہا ہے، میں نام نہیں لوں گا لیکن لوگ سمجھ جائیں گے۔
’مقدمات کے بوجھ کا اصل مسئلہ ضلعی عدالتوں کو درپیش ہے‘
جسٹس وجیہہ نے کہا کہ ہم دولت مشترکہ رکن ممالک میں آتے ہیں جہاں پارلیمانی نظام حکومت ہے اور ہم کامن لا کو فالو کرتے ہیں جبکہ آئینی عدالت ان ملکوں کا تصور ہے جہاں فرانس کے نپولین بونا پارٹ نے سول لا متعارف کرایا اور وہ تصور ہی الگ ہے۔
انہوں نے حکومت کی اس توجیہہ کو بھی مسترد کر دیا کہ آئینی عدالت اس وجہ سے بنائی جا رہی ہے کیونکہ سپریم کورٹ میں زیرالتوا مقدمات زیادہ ہیں۔
جسٹس وجیہہ نے کہا کہ عام آدمی سپریم کورٹ نہیں جاتا بلکہ اس کی رسائی ماتحت عدلیہ تک ہے جہاں نظام درست کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مقدمات کے بوجھ کا اصل مسئلہ ضلعی عدالتوں میں ہے۔