اسرائیل کے حملے میں حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد مشرق وسطی میں کشیدگی میں مزید اضافے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے جبکہ عالمی ماہرین نے علاقائی قوتوں کو کشیدگی سے گریز کرنے کی تجویز دی ہے، دوسری جانب اسرائیل کو بھی ایران سے براہ راست ردعمل کا انتظار ہے۔
یہ بھی پڑھیں: حسن نصراللہ کو شہید کرنے کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کی گئی؟
دوسری جانب حسن نصراللہ کی شہادت پر ایران میں 5 روزہ سوگ کا اعلان کیا گیا ہے، جبکہ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے ایک بیان میں کہا ہے کہ حسن نصراللہ کا خون رائیگاں نہیں جائے گا، ان کے بتائے ہوئے راستے پر سفر جاری رہے گا۔
ایران کے صدر مسعود پزشکیان نے حسن نصراللہ کی شہادت کا ذمے دار امریکا کو بھی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ امریکا کی اسرائیل کے ساتھ ملی بھگت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔
حزب اللہ کی جانب سے اسرائیل کے خلاف کارروائیاں کس طرح کی جائیں گی؟
حسن نصر اللہ کی شہادت کے بعد نعیم قاسم کو حزب اللہ کا عبوری سربراہ مقرر کیا گیا ہے، مستقل سربراہ کون ہوگا اور اسرائیل کے خلاف کارروائیاں کس طرح کی جائیں گی؟ یہ وہ سوال ہیں جن کا فیصلہ ابھی ہونا باقی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کی مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی بڑھتی مہم جوئی کی شدید مذمت
حزب اللہ کو خطے کی مضبوط ترین پیرا ملٹری فورس سمجھا جاتا ہے جس کے پاس نہ صرف جدید ہتھیار ہیں بلکہ ہدف کو نشانہ بنانے والے راکٹس اور ڈرونز بھی ہیں، جبکہ اس تنظیم کا موقف ہے کہ وہ اسرائیل کے تمام حصوں کو نشانہ بنا سکتی ہے جس کا عملی مظاہرہ اس نے اسرائیل کے ساتھ حالیہ مسلح جھڑپوں کے دوران بھی کیا ہے۔
حالیہ تنازع میں حزب اللہ نے اسرائیل کے خلاف ابتدا میں ٹینک شکن میزائل اور راکٹ فائر کیے تھے تاہم بعد میں اس نے دھماکہ خیز مواد لے جانے والے ڈرونز اور زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل بھی استعمال کیے۔
حسن نصراللہ کی موت عرب ممالک میں ایک خاموش خوشی
جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے پروفیسر مہران کامراوا نے خبررساں ادارے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ خطے کے عرب ممالک میں ایک خاموش خوشی پائی جاتی ہے کیوں کہ کوئی بھی عرب ریاست حزب اللہ کو پسند نہیں کرتی اور عرب ممالک کو خدشہ ہے کہ نیتن یاہو جنگ کو پھیلانے میں کامیاب ہو جائیں گے، وہ پہلے ہی لڑائی کو غزہ سے لبنان تک لے آئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ایرانی سپریم لیڈر خامنہ ای کو خفیہ مقام پر منتقل کردیا گیا
ایران اسرائیل سے براہِ راست کشیدگی نہیں چاہتا
پروفیسر مہران کے مطابق اگر ایران کی نظر سے دیکھا جائے تو اس سے بدترین صورتِحال اس سے قبل بھی دیکھی گئی تھی لیکن تہران نے اس وقت بھی کوئی ردِعمل نہیں دیا، تہران اپنی صبر کی اسٹرٹیجی پر گامزن ہے جہاں وہ ایک طویل گیم کھیل رہا ہے اور ان کے خیال میں یہ اسٹرٹیجی مستقبل میں بھی جاری رہے گی، ایران اسرائیل سے براہِ راست کشیدگی نہیں چاہتا۔
اسرائیل کے خلاف لڑنے کے لیے آپ کے پاس جو وسائل ہیں ان سے حزب اللہ کی مدد کریں
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے بھی گزشتہ روز اپنے بیان میں کہا کہ تمام مسلمان لبنان کے عوام اور حزب اللہ کے ساتھ کھڑے ہو جائیں اور اسرائیل کے خلاف لڑنے کے لیے آپ کے پاس جو وسائل ہیں ان سے حزب اللہ کی مدد کریں، خطے کی قسمت کا فیصلہ مزاحمتی قوتیں کریں گی اور حزب اللہ اس میں سب سے آگے ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ایران نے اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کا مطالبہ کیوں کیا؟
خامنہ ای کا یہ بیان ایسے موقع پر آیا ہے جب اسرائیل اور حزب اللہ کی درمیان کشیدگی عروج پر پہنچ چکی ہے اور گزشتہ ایک ہفتے کے دوران اسرائیل کے لبنان پر حملوں میں لبنانی وزارتِ صحت کے مطابق 720 سے زیادہ افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو چکے ہیں۔
سعودی عرب حزب اللہ کو خطے میں کشیدگی کی وجہ سمجھتا ہے
سعودی تجزیہ کار عزیز الغاشیان کے مطابق سعودی عرب حزب اللہ کو خطے میں کشیدگی کی وجہ سمجھتا ہے اور سعودی عرب اور حزب اللہ کے درمیان دوستانہ تعلقات بھی نہیں۔
نہیں لگتا کہ ایران حسن نصراللہ کی شہادت کا جواب دے گا
کارنیگ مڈل ایسٹ سینٹر کے اسکالر عبداللہ بابود بھی کہتے ہیں کہ انہیں نہیں لگتا کہ ایران حسن نصراللہ کی شہادت کا جواب دے گا کیوں کہ تہران نے اپنی سر زمین پر حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے باوجود اسرائیل کو براہِ راست کوئی جواب نہیں دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: اسماعیل ہنیہ پر حملہ کیسے ہوا؟ عینی شاہد نے سب بتا دیا
انہوں نے کہا کہ ایران چاہے گا کہ ہر قیمت پر ردِ عمل سے اجتناب کیا جائے، تہران سمجھتا ہے کہ اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو چاہتے ہیں کہ ایران کی جانب سے جواب آئے تاکہ اسے امریکہ کے ساتھ ایک کھلی جنگ میں دھکیل دیا جائے۔
اسرائیل کو ایران سے براہ راست ردعمل کا انتظار
تجزیہ کاروں کے مطابق حسن نصراللہ کے موت پر اسرائیل کو ایران سے براہ راست ردعمل کا انتظار ہے، کیوں کہ اسرائیل جنگ کو عرب ممالک میں پھیلانا چاہتا ہے، اگر ایران اسرائیل پر براہ راست حملہ کرتا ہے تو اسرائیل کو موقع مل جائے گا کہ وہ عرب ممالک میں جنگ کو پھیلائے اور اس جنگ میں امریکا کو اپنے ساتھ ملا کر براہ ایران کے ساتھ ٹکرائے۔