جسٹس منیب اختر نے آرٹیکل 63 اے نظر ثانی کیس کی سماعت کرنیوالے سپریم کورٹ کے لارجر بینچ میں شمولیت سے انکار کردیاہے، رجسٹرار سپریم کورٹ کو لکھے خط میں ان کا کہنا ہے کہ بینچ کی تشکیل میں درست قانون کا اطلاق نہیں کیا گیا ہے۔
آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق 2022 کے صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظر ثانی کی اپیلوں پر سماعت کی پہلے سے جاری شدہ کاز لسٹ کے مطابق سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ کے اہم رکن جسٹس منیب اختر کی جانب سے اختلاف کا معاملہ سامنے آیا۔
یہ بھی پڑھیں: آرٹیکل 63 اے فیصلے پر نظر ثانی کے اثرات کیا ہوں گے؟
رجسٹرار سپریم کورٹ کو خط کے ذریعے اپنے موقف سے آگاہ کرتے ہوئے جسٹس منیب اختر کا کہنا ہے کہ بینچ کی تشکیل میں درست قانون کا اطلاق نہیں کیا گیا، عدم شرکت کو کیس سماعت سے معذرت نہ سمجھا جائے۔
اپنے خط میں جسٹس منیب اختر کا کہنا ہے کہ وہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے تشکیل کردہ بینچ کا حصہ نہیں بن سکتے، ان کا موقف ہے کہ وہ بینچ میں بیٹھنے سے انکار نہیں کر رہے، بینچ میں شامل نہ ہونے کا غلط مطلب نہ لیا جائے اور ان کے خط کو آرٹیکل 63 اے نظرثانی کیس ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح غلط کی، مراد علی شاہ
واضح رہے 17 مئی 2022 کو سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ منحرف رکن اسمبلی کا پارٹی پالیسی کے برخلاف دیا گیا ووٹ شمار نہیں ہوگا، جبکہ نااہلی کی مدت کا تعین پارلیمنٹ کرے گی، مذکورہ فیصلہ جسٹس منیب اختر نے تحریر کیا تھا۔
اس وقت کے چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت مکمل کرنے کے بعد فیصلہ 2 کے مقابلے میں 3 کی اکثریت سے سنایا تھا، جس کے مطابق پارٹی پالیسی کے خلاف رکن اسمبلی کا نہ صرف ووٹ شمار نہیں ہوگا بلکہ وہ نااہل بھی ہوجائے گا۔
مزید پڑھیں:چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کے دور کی احسن اور متنازع روایات
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ جسٹس منیب اختر سے درخواست کریں گے کہ وہ بینچ میں آئیں؛ انہیں اگر کچھ کہنا تھا تو وہ بینچ میں بیٹھ کر کہہ سکتے تھے، میں نے تو ہمیشہ اختلاف رائے کی حوصلہ افزائی کی ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جسٹس منیب اختر نے جو خط لکھا ہے اس میں بینچ کے بجائے رجسٹرار کو ہی مخاطب کیا ہے، آئینی معاملہ دو سال سے زیر التوا ہے، جس بینچ نے فیصلہ دیا تھا اس کی سربراہی سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کر رہے تھے۔
چیف جسٹس کے مطابق بینچ میں جسٹس مظہر عالم میاں خیل، جسٹس منیب اختر، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس جمال خان مندوخیل شامل تھے؛ میں نے مناسب سمجھا کہ قانون کے مطابق جو ججز پہلے فیصلے میں شامل تھے انہیں نظر ثانی بھی سننی چاہیے۔
مزید پڑھیں:آرٹیکل 63 اے نظرثانی اپیل، سپریم کورٹ کا لارجر بینچ آج سماعت کرے گا
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ہم ابھی جاکر جسٹس منیب سے بینچ میں بیٹھنے کی درخواست کریں گے، ہم انہیں راضی کرنے کی کوشش کریں گے ورنہ بینچ کی تشکیل نو ہوگی، ایک بار بینچ بن چکا ہو تو کیس سننے سے معذرت صرف عدالت میں ہی ہو سکتی ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے مشورہ دیا کہ بینچ کل دوبارہ بیٹھے، اس موقع پر بیرسٹر علی ظفر نے کمیٹی پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کمیٹی تب ہی بینچ بنا سکتی ہے جب تینوں ارکان موجود ہوں، عدالت نے کیس کی سماعت کل ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی۔