سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس، جسٹس عمر عطاء بندیال 16 ستمبر کو ریٹائر ہو رہے ہیں اور ان کی جگہ قاضی القضات منصب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سنبھالیں گے۔
جسٹس عمر عطاء بندیال کا دور پاکستان کی تاریخ بالعموم اور پاکستان کی عدالتی تاریخ کے لیے بالخصوص کیسا ثابت ہوا، اس بارے میں وی نیوز نے سپریم کورٹ سے ریگولر بنیادوں پر رپورٹنگ کرنے والے سینیئر صحافی حسنات ملک اور عدیل سرفراز سے گفتگو کی جو آپ اس ویڈیو سن سکتے ہیں۔
اگر چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کے دور کی اچھی باتوں کا تذکرہ کیا جائے تو ایک بات جس پر ہمارے دونوں مہمانان گرامی نے اتفاق کیا کہ وہ یہ تھی کہ اس دور میں توہین عدالت کے نوٹسز جاری نہیں کیے گئے اور صحافیوں کی جانب سے تنقید کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا گیا۔
لیکن اس ایک نقطے کے علاوہ جسٹس بندیال کے دور میں ہمیں ملک کی اعلٰیٰ ترین عدالت پر لوگوں کے اعتماد میں کمی ہوتی نظر آئی۔ اسی دور میں یہ ہوا کہ پہلی دفعہ پنجاب انتخابات کے مقدمے میں فیصلہ متنازع ہو گیا کہ آیا یہ چار تین سے مسترد ہو چکا ہے یا دو تین سے منظور۔ معاملہ اگر عوام یا صحافیوں کی رائے تک رہتا تو پھر بھی کوئی بات نہیں تھی لیکن جب اس پر دیگر ججز نے نوٹ جاری کیے تو فیصلے پر اعتراضات اور سوالات کی نوعیت سنگین ہو گئی۔
ہمارے مہمانان گرامی نے اس بات سے بھی اتفاق کیا کہ جسٹس بندیال کے دور میں سب سے اہم مقدمہ جس نے ملک میں بے یقینی کی فضا پیدا کی وہ آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق تھا جس میں پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے والے اراکین قومی اسمبلی کو نااہل کیا گیا۔ اس موضوع پر مزید تبصرے کے لیے دیکھیے یہ انٹرویو۔