سوشل میڈیا پر کسی نے سوال اُٹھایا تھا کہ علی امین گنڈاپور نے انقلاب کا اعلان کردیا تو کیا اس سے پہلے جو تحریک انصاف انقلاب لانے کا دعویٰ کررہی تھی وہ دعویٰ جھوٹا تھا؟۔ اس کا جواب یہ ہے کہ نہیں وہ انقلاب خیبرپختونخوا میں لاچکے ہیں اب پنجاب کی باری ہے۔ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کے لائے گئے انقلاب کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ شام ایک مریض کو ڈیرہ اسماعیل خان لے جانے کی ضرورت پڑی تو کوئی بھی ٹیکسی ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان کے درمیان سفر کرنے کے لیے راضی نہیں تھا۔ کیونکہ اس وقت خیبرپختونخوا میں تھوڑے سے اندھیرے میں بھی سفر خطرے سے خالی نہیں رہا حالانکہ دن کے اجالے میں بھی خطرے ہی خطرے ہیں۔
خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کے لائے گئے انقلاب کا اندازہ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ اس وقت پولیس فورس سڑکوں پر احتجاج کررہی ہے اور پولیس فورس کی اپنی زندگیاں تو کیا ان کے خاندان والوں کی زندگیاں بھی خطرات سے دوچار ہیں۔
بہت سے دوست یہ سوال اٹھا سکتے ہیں کہ اس میں کسی سیاسی جماعت کا کیا کردار ہو سکتا ہے کیونکہ سیاسی جماعتیں کٹھ پتلیوں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں۔ تو جناب عرض یہ ہے کہ عمران خان کی تقاریر اب بھی ریکارڈ پر موجود ہیں جب انہوں نے شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار کا کردار ادا کیا تھا۔
خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کے لائے گئے انقلاب کا سلسلہ طویل ہے۔ کسی بھی صوبے کی بنیاد ضلعوں کے انتظامی حالات پر قائم رہتی ہے لیکن خیبرپختونخوا کا ہر ضلع انتظامی طور پر بیٹھ چکا ہے۔ بیوروکریسی کی حالت یہ ہے کہ پہلے کمشنز وغیرہ سے کام چلالیتے تھے لیکن اب ترقیاتی منصوبوں کے پیسے ریلیز کرانے کے لیے بارہ فیصد الگ سے لیتے ہیں۔
جبکہ ضلعی ایڈمنسٹریٹرز کے پاس اتنا بھی فنڈ نہیں ہوتا کہ وہ کسی قدرتی آفت بالخصوص سیلاب وغیرہ کے وقت فوری اور ابتدائی کام شروع کرا سکیں کیونکہ خیبرپختونخوا میں ہر سال تباہ کن سیلاب آتے ہیں۔
علی امین کا انقلاب خود اس کے آبائی گاؤں کے لیے سیلاب بن چکا ہے۔ اس وقت کلاچی تحصیل کے گنڈاپور علاقوں کے حالات ناقابلِ بیان ہیں اور بجائے اس کے کہ موصوف اپنے علاقے کی فکر کریں، وہ گاڑی پر چڑھ کر پنجاب پر چڑھائی کر دیتے ہیں اور پھر اچانک غائب بھی ہو جاتے ہیں۔
پچھلے واقعے میں جب گنڈاپور صاحب اسلام سے مسنگ ہوئے تو ایک دوست نے مسیج کیا کہ پی ٹی آئی کے فلاں فلاں لوگ گرفتار ہوئے ہیں۔ جبکہ گنڈاپور صاحب غائب ہیں اور لوگ کہتے ہیں کہ ان کو غائب کردیا گیا۔ ان دنوں وزیرستان میں تھا جہاں انٹرنیٹ سروس گزشتہ دو سالوں سے معطل ہے لیکن گنڈاپور صاحب کی سیاسی کردار کو جاننے کے دعویدار کے طور پر اپنے دوست کو جواب دیا تھا کہ اگلی صبح وہ کہیں پشاور میں ہاتھ جھاڑ کر منظر عام پر آجائیں گے اور خوب دھاڑیں گے۔
انقلابی وزیر اعلی کی خوش قسمتی دیکھیں کہ ان کے جماعت کے فالورز کو اتنی صاف دکھائی دینے والی چیزیں بھی نظر نہیں آتیں اور گنڈاپور صاحب انقلاب کی مسند پر بیٹھنے کا اعلان بھی فرما دیتے ہیں۔
گنڈاپور صاحب اپنی انقلابی سوچ کو توسیع دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہم قبائل سے کہتے ہیں کہ وہ جرگے کریں اور قبائل کا نام استعمال کرکے دھمکی بھی جاری فرما دیتے ہیں حالانکہ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ گنڈاپور صاحب کی دھمکی بھی مصنوعی ہوتی ہے لیکن یہ بات ان کے علم میں لانا ضروری ہے کہ قبائل اپنے موجودہ حالات میں تحریک انصاف کے حصے کا سارا سچ جانتے ہیں۔ ہمارے بعض دوست بالخصوص پنجاب کے اس بات پر غصے کا اظہار کر رہے ہیں کہ قبائل کی چڑھائی کی دھمکی دی ہے تو ان دوستوں کے لیے دو باتیں ضرور کرتا جاؤں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ گنڈاپور صاحب کا قبائل سے کوئی تعلق نہیں ہے اور یہاں کے رواج اور روایات میں کسی بھی سیاسی پارٹی یا لیڈر سے کوئی تعلق نہیں رکھا جاتا اور جو فیصلہ ہوتا ہے وہ علاقائی نفع و نقصان کو مدِنظر رکھ کر ہوتا ہے۔
اب آتے ہیں دوسری بات کی طرف وہ یہ ہے کہ اس وقت قبائل کو خود بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر بم دھماکے اور ٹارگٹ کلنگز ہوتی ہیں۔ جبکہ انقلاب لانے والوں کی زبانوں کو تالے لگے ہوئے ہیں تو کیا قبائل ایک ایسے مشکل وقت ساتھ نہ دینے والے کسی لیڈر کے لیے جرگے کریں گے ؟ ہاں جرگے بھی ہوں گے لیکن روایتی قبائلی جرگے نہیں ہوں گے البتہ رنگ برنگی انصافی کارکن بیٹھ کر جرگوں کا تاثر دینے کی ضرور کوشش کریں گے جس کے لیے تحریک انصاف پراپیگنڈہ کرنے میں کافی مہارت بھی رکھتی ہے۔
راولپنڈی کے احتجاج سے پہلے گنڈاپور صاحب کے بیانات ریکارڈ پر موجود ہیں کہ وہ وہاں جاکر آسمان اور زمین کو ملا دیں گے لیکن ہوا کیا؟ آدھے راستے سے واپس اپنے ٹھکانے کو آگئے۔ میں اس بات کی تائید نہیں کررہا کہ تحریک انصاف کو پنجاب میں انقلاب نہیں لانا چاہیئے یا ان کو احتجاج کرنے کا حق نہیں ہے لیکن اس بات پر اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ پہلے اپنے گھر کی طرف کیوں نہیں دیکھا جارہا؟ کیا خیبرپختونخوا کے عوام کو یہ حق نہیں کہ انہوں نے جن کو ووٹ دیا ہے وہ ان سے اپنے ووٹ کے بدلے بنیادی سہولیات کا تقاضا کرسکیں؟ ٹھیک ہے عمران خان کو انصاف ملنا چاہیے لیکن خیبرپختونخوا میں روزانہ کی بنیاد پر اموات ہو رہی ہیں۔ کیا قیمتی جانوں کے ضیاء سے زیادہ خان صاحب کی وزارت عظمیٰ کی کرسی ضروری ہے؟
یوں لگتا ہے کہ عوام کی جان و مال کی حفاظت صوبائی حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے لیکن ایک وقت آئے گا کہ ان کو حساب دینا پڑے گا۔ جہاں تک تحریک انصاف کے کارکنان کا تعلق ہے تو ان کو صرف پشتونوں سے جوڑنا زیادتی ہے کیونکہ یہ پاکستان کے ہر صوبے ہر ضلعے میں موجود ہیں جو صرف یہ جانتے ہیں کہ باقی سب ڈوب مرے بس خان زندہ باد۔