موجودہ مالی سال میں تقریباً 13 ٹریلین (کھرب) روپے جمع کرنے کا ہدف ہے۔ یہ کام ہم نے خود اپنے ذمے نہیں لیا بلکہ آئی ایم ایف نے ہم پر تھوپا ہے۔ چنانچہ جس سابقہ مسلم لیگی حکومت نے سنہ 2013،14 میں نان فائلر کی کیٹگری ایجاد کی تھی اسی مسلم لیگ کی موجودہ حکومت نے عندیہ دیا ہے کہ اب صرف ایک کیٹگری ہوگی۔ ٹیکس دینے والا یا ٹیکس نہ دینے والا۔
نان فائلر کیٹگری اس امید پر پیدا کی گئی تھی کہ اہلِ سرمایہ بطور نان فائلر ہر شے پر زیادہ ٹیکس دینے کے مسلسل دباؤ سے گھبرا کر بالاخر ٹیکس نیٹ میں آ جائیں گے۔ مگر اہلِ سرمایہ کے پاس ہمیشہ سے ایسی ریاستی حرکات کا آزمودہ توڑ یہی ہے کہ اضافی ٹیکس کا بوجھ میرے اور آپ پر ڈال دو اور منافع پر آنچ نہ آنے دو۔
جس اجلاس میں وزیرِ اعظم نے ایف بی آر کو یہ اختیار دیا کہ وہ قطعاً ٹیکس نہ دینے والوں یا کم ٹیکس جمع کرانے والوں کا ناطقہ بند کر دیں اسی اجلاس میں وزیرِ اعظم کو یہ بھی بتایا گیا کہ اس ملک میں اب تک ہر حکومت نے جتنے بھی ’سخت‘ اقدامات کیے، کالے دھن کو سفید کرنے کی جتنی بھی رعایتیں دیں، یکساں رعایتی شرح سے دکانداروں پر کم از کم سالانہ ٹیکس لگانے اور پچھلے واجبات معاف کر دینے کی جتنی بھی ترغیبات قدموں میں بچھائی گئیں، تادیبی اقدامات کا ڈنڈا بھی سروں پر لہرایا گیا، حب الوطنی کے واسطے بھی دیے گئے۔ یہ سب پاپڑ بیلنے کے باوجود آج بھی حال یہ ہے کہ اس ملک کے 82 فیصد مینوفیکچررز سیلز ٹیکس کی چوری کرتے ہیں یا پھر ہیرا پھیری کرتے ہیں۔ 92 فیصد رٹیلرز اور 75 فیصد ہول سیلرز ٹیکس کے لیے رجسٹرڈ ہی نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: فول پروف ٹیکنالوجی ایک جھانسہ
جو 20 بڑے صنعتی و تجارتی شعبے ٹیکس نیٹ میں نہیں یا ہیں بھی تو قانونی سقم کا فائدہ اٹھا کے موشگافی کے سوراخ کو اپنے تئیں ’جائز شگاف‘ میں بدل کے صاف نکل جاتے ہیں۔ وزیرِ اعظم کو بتایا گیا کہ ٹیکسٹائیل سیکٹر کی آمدنی اور ٹیکس کے درمیان 700 ارب روپے اور سیمنٹ سازی کے شعبے کی آمدنی اور ٹیکس کے درمیان 100 ارب روپے کا فرق پایا گیا۔ ریبیٹ کی مدد میں ایف بی آر کے پاس 250 ارب روپے سے زائد واجب الادا رقم پڑی ہے۔ مگر اس رقم کا کوئی دعویدار ’فالتو کی بازپرس‘ سے بچنے کے لیے سامنے نہیں آتا۔
یہ بھی بتایا گیا کہ صرف فائلر ہونا کافی نہیں رہا۔ تصویر کچھ یوں ہے کہ گزشتہ مالی سال کے دوران 60 لاکھ ٹیکس گوشوارے جمع کروائے گئے۔ ان میں سے 24 لاکھ گوشواروں میں ٹیکس کی مد میں زیرو چمک رہا تھا۔
پچھلے ایک عشرے سے یہ سن سن کے کان پک گئے کہ ایف بی آر کے پاس ٹیکس نیٹ سے باہر ایسے 10 لاکھ متمول لوگوں کی فہرست ہے جن کے پاس گاڑی ہے، بنگلہ ہے، بینک بیلنس ہے، بیرونی ممالک کے دوروں کا ریکارڈ اور کریڈٹ کارڈز پر کیے گئے خرچوں کی تفصیل ہے۔ یعنی آمدنی اور طرزِ زندگی میں واضح فرق کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں۔ اب ان پر ہاتھ ڈالنے کا فیصلہ ہو گیا ہے۔ ’اوئے ٹیکس چورا ہن بچ کے وکھا ایف بی آر توں‘۔
ایسی بڑھکوں کے بعد اگلے ایک برس کے لیے سناٹا چھا جاتا ہے اور پھر نئے مالی سال کے شروع ہونے سے زرا پہلے یا آئی ایم ایف کے پاس جاتے سمے من وعن یہی سائیکلو اسٹائل بڑھک سنائی دیتی ہے کہ خبردار ہمارے پاس 10 لاکھ کی لسٹ ہے۔
ممکن ہے میرا مشاہدہ قطعاً نامعقول ہو مگر اوپر سے نیچے تک مجھ سمیت رضاکارانہ قومی زمہ داری سمجھتے ہوئے خود پر واجب الادا ٹیکس بھرنے والا شخص میری نگاہ سے تو نہیں گزرا۔
علاج یہ ہے کہ مجبور کر دیا جاؤں
وگرنہ یوں تو کسی کی نہیں سنی میں نے (جون ایلیا)
مگر یقیناً ایسے بہت سے شہری ہوں گے ضرور جو قومی فریضہ سمجھ کے پورا ٹیکس باقاعدگی سے جمع کراتے ہوں گے۔
اکثر یہی دیکھا گیا ہے کہ جو ٹیکس نیٹ میں کسی نہ کسی وجہ سے پھنس گیا وہ کسی ایسا جادوگر تلاش کرتا ہے جو زیادہ سے زیادہ آمدنی ٹیکس گوشوارے کی ایسی مدوں میں ڈالنے کا ماہر ہو جن میں کھپنے کے بعد اتنے پیسے ہی دکھائی نہ دیں کہ جن پر ٹیکس لگ سکے یا پھر کم ازکم علامتی ٹیکس دینا پڑے۔
اگر آپ بہترین ماہرِ مالیات یا دگج چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہیں تو آپ کی ڈگریوں، بائیو ڈیٹا اور مہارت کی تعریف یقیناً ہو گی۔ البتہ آپ کو اگر کمپنی یا سیٹھ کو ٹیکس سے بچانے کا فن نہیں آتا تو آپ کی قابلیت بھلا کس کام کی؟
مزید پڑھیے: فن پاروں کی چوری خوش آئند ہے
جن ممالک میں قتل کے بعد سب سے سنگین جرم ٹیکس چوری سمجھا جاتا ہے۔ بالخصوص جس سیاستدان پر ثابت ہو جائے کہ اس نے ٹیکس چوری کی ہے یا دھوکہ دہی سے ٹیکس بچایا یا کسی کی اس سلسلے میں مدد کی تو اسی لمحے اس کا سیاسی کیریئر دفن سمجھیے۔
ایسے ممالک میں عام آدمی اس یقین کے ساتھ ٹیکس دیتا ہے کہ اس کے عوض ریاست اسے بنیادی شہری، تعلیمی، روزگاری اور صحت سہولتوں کی فراہمی کے علاوہ ایماندارانہ نظامِ انصاف کے ذریعے بنیادی تحفظ کی فراہمی سے ہرگز نہیں چوکے گی۔ مگر ہمارے ہاں جتنا بھی ٹیکس جمع ہوتا ہے اس کا آخر کتنا فیصد ٹیکس دینے والے کو فلاں فلاں سہولت کی شکل میں ریاست واپس کرتی ہے؟
ہمارے قومی خرچوں کی ترجیحات دیکھ لیں آپ کو جواب مل جائے گا۔ جتنا بھی ٹیکس جمع ہوتا ہے وہ سب کا سب قرضوں کے سود میں چلا جاتا ہے۔ انتظامی امور، دفاع اور سماجی سیکٹر کا بجٹ مزید قرضے لے کر پورا ہوتا ہے۔ سماجی سیکٹر میں سب سے کم رقم، تعلیم، صحت اور روزگاری ہنرمندی کے فروغ پر صرف ہوتی ہے۔
اگر مذکورہ بالا لازمی خرچوں کو ریاست کی مجبوری مان لیا جائے تو پھر عام شہری کو ٹیکس دینے پر آمادہ کرنے کا دوسرا طریقہ شاید یہ ہے کہ ریاستی باگ ڈور جن افراد ، جماعتوں اور اداروں کے ہاتھ میں ہے وہ خود ایمان دار ٹیکس کلچر کے فروغ میں عملی حصہ دار ہوں تاکہ عام آدمی کو اس بابت کوئی رول ماڈل ( مثالیہ ) دکھائی دے سکے۔
مزید پڑھیں: تسی گیم شروع کرو اللہ وارث ہے
مگر مثالیہ تو کجا، طبقہِ اشرافیہ کے اگر آپ ٹیکس گوشوارے ہی پڑھ لیں تو روتے روتے ہچکی بندھ جائے گی اور آپ کا جی چاہے گا کہ جیب میں جو 2،4 سو روپے بچ گئے ہیں وہ بھی ان ’امیر ترین غریبوں‘ کے حوالے کر دیں جو دن رات 24 گھنٹے 7 دن صرف اور صرف ہمارے بارے میں اور اس پاکستان کو جنوبی کوریا، سنگا پور یا تائیوان بنانے کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔
آپ ٹیکس اگلوانے کے نت نئے تادیبی اقدامات بالکل کیجیے۔ ٹیکس چوروں کا حقہ پانی بند کر دیجیے۔ بے شک نان فائلرز کو قانون کی ٹکٹکی پر باندھ دیجیے۔ کامیاب ہو گئے تو نیند سے جگا کے شرمندہ ضرور کیجیے گا۔ یوں بھی بہت دن ہو گئے مجھے شرمندہ ہوئے۔