نڑسُر قدیم بلوچ تہذیب کا اہم حصہ ہے۔ اس لوک موسیقی کے ذریعے بلوچی اپنی ثقافت، تہذیب، اور تاریخ کو محفوظ اور منتقل کرتے تھے۔
یہ موسیقی تین فنکاروں کے اشتراک سے وجود میں آتی ہے: شاعر، موسیقار، اور گلوگار۔ شاعر تاریخی، عشقیہ اور جنگی داستانوں کو شعری شکل میں لکھتا ہے، جبکہ موسیقار دھن ترتیب دیتا ہے جس پر گلوگار اپنی آواز کا جادو جگاتا ہے۔
بنیادی طور پر ’نڑ سُر‘ دو الفاظ کا مجموعہ ہے۔ نڑ سے مراد روایتی بانسری ہے جبکہ سُر سے مراد گانا۔ اس میں بانسری بجانے والے کو ناڑی اور گانے والے کو سُری کہا جاتا ہے۔
’نڑ سُر‘ ایک قدیم ثقافتی ورثہ ہے جو گزشتہ 300 سال سے زائد عرصہ سے نسل در نسل بلوچ قبائل میں موجود ہے۔ نڑسر میں نہ صرف جنگوں کے قصے اور ہیروز کی داستانیں محفوظ ہیں، بلکہ محبت کی داستانیں اور دیگر لوک کہانیاں بھی اس کا حصہ ہیں۔
ایک وقت تھا کہ بلوچستان کے کوہلو، ڈیرہ بگٹی، بارکھان، موسیٰ خیل اور پنجاب کے قبائلی علاقوں تونسہ، فورٹ منرو، کوہِ سلیمان اور کھرڑ بزدار نڑ سر کی محفلیں آئے روز سجتی تھیں۔
جرگوں، شادی بیاہ کی تقریبات، بیٹوں کے عقیقہ اور خوشی کے دیگر مواقع پر یہ گائی جاتی تھی۔ آج کل یہ زیادہ تر شادی کے پروگراموں میں ہوتی ہے جبکہ دیگر مواقع پر کافی حد تک معدوم ہو چکی ہے۔ البتہ اسکولوں کی تقریبات اور ثقافتی دنوں میں اس موسیقی کو بجایا اور گایا جاتا ہے۔
آج کی نوجوان نسل نڑ سر کے لب و لہجے کو پوری طرح نہیں سمجھتی۔ نوجوان دورِ جدید کی موسیقی کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔ اس وجہ سے نڑسر کے فنکاروں کی اہمیت کم ہو رہی ہے اور ان کی حوصلہ افزائی نہیں ہو رہی۔
حکومت کی جانب سے بھی فنکاروں کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے۔
زمانے کا تغیر و تبدل، نئی نسل کی عدم دلچسپی اور حکومتی بے توجہی کے باعث نڑسر تین صدیوں تک بلوچستان میں راج کرنے کے بعد اب آخری سانسیں لے رہی ہے۔ مگر آج بھی کچھ لوگ اس کے دیوانے ہیں جو نہ صرف اس کی محفلوں کا شوق سے اہتمام کرتے ہیں بلکہ اس عظیم ورثہ کو نئی نسل تک بھی منتقل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔
جمال الدین کا شمار بھی ایسے ہی افراد میں ہوتا ہے۔ وہ خود تو سارا دن ریڑھی پر گلی گلی گھوم کر سبزی بیچتے ہیں مگر شام کو اپنے دادا سے سیکھی نڑ سر سے محبت نبھانے میں کوتاہی نہیں کرتے۔
جمال الدین نے وی نیوز کو بتایا کہ وہ شادی بیاہ اور دیگر خوشی کے مواقع پر نڑ سر بجاتے ہیں جس کا انہیں معاوضہ کبھی ملتا ہے اور کبھی نہیں، لیکن ان کے شوق کی تسلی بہرحال ہو جاتی ہے۔ وہ اپنے خاندان کے چھوٹے بچوں اور نوجوانوں کو نڑ سر سکھا بھی رہے ہیں اور عزم کیے ہوئے ہیں کہ اپنی آخری سانسوں تک دم توڑتی نڑ سر کی سانسیں بحال کرنے کی کوشش میں لگے رہیں گے۔