دھرنے کی سیاست

منگل 1 اکتوبر 2024
author image

شمع جونیجو

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

عمران خان پچھلے 13 ماہ سے جیل میں ہیں لیکن ان کی سیاسی حکمت عملی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی جس کا محور صرف اور صرف تصادم ہے۔ کل صبح انہوں نے اڈیالہ جیل سے ایک نئے احتجاج کی ہدایت دی ہے، جو ڈی چوک اسلام آباد میں ہونا ہے اور شاید اس بار احتجاج کو دھرنے میں تبدیل کرنے کی بھی کوشش کی جائے۔

ویسے ڈی چوک پر دھرنا عمران کا وہ خواب ہے، جسے شجاع پاشا اور ظہیر السلام جیسوں کی پلاننگ نے شرمندہ تعبیر کیا تھا۔ ڈی چوک کا دھرنا یہ بھی یاد دلاتا ہے کہ 2014 میں ان کا 126 دنوں کا طویل دھرنا کس طرح چینی صدر کے دورہ پاکستان کی منسوخی کا باعث بنا تھا، جس سے اہم اقتصادی مذاکرات رک گئے تھے اور پاکستان کا پھر جو حشر ہوا، وہ تاحال سنبھلنے میں نہیں آرہا۔ اب عمران خان کی دوبارہ دھرنے کی کال ایک ایسے وقت میں آئی ہے جب ملک کو معاشی طور پر استحکام کی اشد ضرورت ہے۔

حالیہ آئی ایم ایف قرض نے پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچایا ہے اور شنگھائی تعاون تنظیم کی اگلے 2 ہفتوں میں ہونے والی یہ کانفرنس پاکستان کے لیے اقتصادی مواقع پیدا کرنے کا ایک اہم موقع ہے۔ ان حالات میں ڈی چوک میں ہونے والے کوئی بھی سیاسی محاذ آرائی ملکی استحکام کے لیے بڑا خطرہ ہے۔

2014 کی طرح، عمران خان کی حالیہ حکمت عملی کا مقصد بھی اقتدار ہے۔ ان کا مقصد اداروں کو کمزور کر کے مخالفین کو نقصان پہنچانا ہے، جیسے مبینہ طور پر انہوں نے 9 مئی کو کیا۔ ان واقعات نے نہ صرف قومی سلامتی کو بھی خطرے میں ڈالا بلکہ ملک میں تقسیم اور انتشار کو بھی فروغ دیا۔

عمران خان نے فوج، عدلیہ اور بیوروکریسی کو اپنی ذاتی سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا ہے جو ملک کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ اُن کی اس سیاسی حکمت عملی نے نہ صرف ملکی اداروں کو نقصان پہنچایا بلکہ عدلیہ اور بیوروکریسی میں ایسی دراڑیں ڈالی ہیں وہ ملک کی بنیادوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہی ہیں۔ آج عدلیہ کے کردار پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں، کیونکہ عدلیہ نے محض عمران خان کو فائدہ پہنچانے کے لیے آئین کی نئی تشریحات سامنے آتی رہی تھیں۔

پاکستان کے موجودہ اقتصادی اور سیاسی بحران کے علاقائی اور عالمی سطح پر بھی اثرات سامنے آرہے ہیں۔ چین کے ساتھ سی پیک منصوبہ، جو پاکستان کی معیشت کو مضبوط بنا سکتا ہے، دہشتگردی اور اندرونی خلفشار کی وجہ سے خطرے میں ہے۔ عمران خان کے انتقام اور خیبر پختون خواہ سے پنجاب میں امپورٹڈ وائلنس کی سیاست نہ صرف اندرونی استحکام کے لیے خطرہ ہے بلکہ یہ بیرونی سازشوں کو بھی بڑھا سکتا ہے۔ اسرائیل، حماس اور حزب اللہ کے درمیان جاری تنازعہ، اور اسرائیلی جارحیت کے بڑھتے ہوئے واقعات نے بھی پاکستان کے لیے عالمی سطح پر چیلنجز کھڑے کر دیئے ہیں۔ یہ سوال قابل ذکر ہے کہ عمران کے لیے صرف ہندوستانی اور اسرائیل نواز لابیز ہی کیوں سرگرم ہیں، کیوں مستقل اسرائیلی اخباروں میں لکھا جارہا ہے کہ صرف اور صرف عمران ایک واحد لیڈر تھا جو کہ دونوں ممالک میں تعلقات قائم کرسکتا تھا۔

کیوں اُنہیں اینٹی اسٹیبلشمنٹ کہا جاتا ہے جبکہ اُن کا تین سالہ اقتدار ہی اسٹیبلشمنٹ کی مرہون منت تھا اور جس دن اسٹیبلشمنٹ پیچھے ہٹی، اُن کے اقتدار کا بُت دھڑام سے آ گرا۔ ایک مستقل جنگ میں گھرے خیبر پختونخواہ کے اقتدارکی جیل سے باگیں ہلانے والے عمران خان کی سیاست کا مقصد ملک کی بہتری نہیں بلکہ ذاتی اقتدار کی بحالی ہے، جس کے لیے وہ ملکی اداروں کو کمزور کر رہے ہیں۔

پاکستان اس وقت بین الاقوامی طاقتوں کے درمیان پھنس چکا ہے، جہاں چین اور روس کے ساتھ اس کے اسٹریٹجک تعلقات مضبوط ہو رہے ہیں جبکہ امریکہ کے ساتھ کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ برکس میں شمولیت پاکستان کے لیے اقتصادی فوائد لا سکتی ہے، لیکن مسلسل انارکی کی سیاست بازی ان مواقع کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔

ان حالات میں، کیا عمران خان کا ممکنہ فوجی ٹرائل جو کہ اگر ہُوا تو وہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کاایک فیصلہ کُن موڑ ثابت ہوگا اور اُسی کو روکنے کے لیے عمران نے جو خیبر پختونخواہ میں جو خوارجی بسا کے اپنی سیاسی سرمایہ کاری کی ہے اُس کا آخری معرکہ شروع ہونے والا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp