آزاد کشمیر کی مخلوط حکومت نے برطانوی دور حکومت کے ایک قانون میں ترمیم کی ہے جو سیاسی اشرافیہ کو تنقید سے بچانے کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔
قانون ساز اسمبلی نے گزشتہ ماہ آزاد پینل کوڈ 1860 کی دفعہ 505 میں ترمیم کی جس کے بعد سیاسی اور انتظامی اشرافیہ پر تنقید جرم تصور ہوگا۔ تنقید کرنے والے کو 7 سال تک قید اور جرمانے کی سزا ہوسکتی ہے۔
آزاد کشمیر کی مراعات یافتہ سیاسی اشرافیہ نے نو آبادیاتی دور کے اس قانون میں 164 سال بعد ترمیم کی ہے۔
پی ایم ایل ن، پی پی پی اور پی ٹی آئی تاریخی حریف ہونے کے باوجود قانون میں ترمیم کے لیے متحد ہوئے۔
واضح رہے کہ1960 میں برٹش انڈیا میں برطانوی وائسرائے لارڈ کننگ نے بھی اس قانون میں خود کو یا دیگر برطانوی حکام کو تحفظ فراہم نہیں کیا تھا۔
اس خطے میں دہائیوں سے بری حکمرانی، اقربا پروری، کرپشن، اختیارات کا غلط استعمال، احتساب اور شفافیت کا فقدان رہا ہے۔ رواں سال مئی میں آزاد کشمیر میں اپنے حقوق کے لیے ایک بڑی عوامی تحریک نے ان سیاست دانوں کو ہلا کر رکھ دیا، جواب میں سیاسی اشرافیہ نے برطانوی سامراج کی قانون میں تبدیلی کی اور خود پر تنقید جرم قرار دیدیا۔
سید اشفاق حسین کاظمی وائس چئیرمین آزاد کشمیر بار کونسل نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کا قانون مارشل لا کے دور میں بھی نافذ نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ سیکشن 505 میں ترمیم کرکے حکومت، سرکاری اداروں اور افسروں پرتنقید کو جرم قرار دینے کر آزاد کشمیر کے عبوری آئین کی خلاف ورزی کی گئی ہے کیونکہ آزاد کشمیر کا آئین اظہار رائے کا حق دیتا ہے۔ سید اشفاق کاظمی نے کہا کہ وہ اس قانون کو عدالت میں چلینج کررہے ہیں اور اس کے لیے انہوں نے وکلا کی ایک ٹیم تشکیل دی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہی کہ نہ صرف مخلوط حکومت میں شامل تمام جماعتوں نے اس قانون کی حمایت کی بلکہ حزب مخالف کی جماعت یعنی عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف نے بھی اس کی حمایت کی۔ اسمبلی میں حزب مخالف کے رہنما خواجہ فاروق اس کمیٹی کا حصہ تھے جس نے اس قانون کی منظوری دی جس کے بعد اسمبلی نے متفقہ طور پر اس قانون کو منظور کیا۔
مخلوط حکومت میں وزیر اعظم چوہدری انوارالحق کی سربراہی میں پی ٹی آئی کا فارورڈ بلاک، نواز شریف کی مسلم لیگ ن اور بلاول بھٹو کی پیپلز پارٹی شامل ہیں۔
یہ الگ بات ہے کہ اسمبلی کے باہر مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے اہم رہنماؤں نے اس قانون کی مخالفت کی۔
آزاد کشمیر کے سابق وزیراعظم اور رکن اسمبلی راجہ محمد فاروق حیدر خان نے کہا کہ اس قانون کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ فاروق حیدر خان آذاد کشمیر میں مسلم لیگ ن کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔ انہوں نے یہ رد عمل ایک نیوز کانفرنس کے بعد کیا اور اپنی حکومت کوچلینج کیا کہ وہ اس پریس کانفرنس کے انعقاد پر اپنے نئے ترمیمی قانون کے تحت ان کے خلاف کارروائی کرکے دکھائیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسا قانون کمزور حکومتیں نافذ کرتی ہیں۔
اگرچہ عمران خان کی پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی اس قانون کو منظور کرانے میں پیش پیش تھے تاہم بعدازاں پی ٹی آئی کے صدر اور رکن اسمبلی سردار عبدالقیوم نیازی نے اس قانون کو جنگل کا قانون قرار دیا۔
عبدالقیوم نیازی آزاد کشمیر کے وزیراعظم بھی رہ چکے ہیں۔ انہوں نے برطانوی نو آبادیاتی دور کے قانون کو ڈوگرہ حکمرانی کے دور کا قانون قرار دیتے ہوئے کہا’ عمران خان ایسے قانون کو تسلیم ہی نہیں کرتے ہیں جو بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہو لہذا ہم اس قانون کو مسترد کرتے ہیں۔‘
واضح رہے کہ راجہ فاروق حیدرخان اورعبدالقیوم نیازی اس روز اسمبلی میں موجود نہیں تھے جب یہ قانون منظور ہوا۔
پنجاب اسمبلی میں پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے رکن اسمبلی قاضی احمد سعید نے اس قانون کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ جمہوریت نہیں بادشاہت ہے۔
وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’یہ غلط ترمیم کی گئی ہے۔ یہ عوام کی آزادی پر ڈاکہ ہے۔ یہ لوگوں کی آزادی، لوگوں کی رائے اور ان کی سوچ کو دبانے کی کوشش ہے۔
’میری ذاتی رائے ہے کہ یہ بالکل غلط ہے۔ میں یہ بات قائدین تک بھی پہنچاؤں گا۔ ہم کیسے کسی کی سوچ کو، رائے کو اور آزادی کو دبا سکتے ہیں۔ یہ جمہوریت تو نہ ہوئی ، یہ بادشاہت سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آزاد کشمیر کے عوام کو آزادی رائے کا حق حاصل ہونا چاہیے۔ وہ اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کریں۔