ازخود نوٹس کی ’شمشیر برہنہ‘ کب،کیوں،کیسے؟

جمعہ 7 اپریل 2023
author image

بلال غوری

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

چیف جسٹس سپریم کورٹ کی طرف سے ازخود نوٹس لینے اور خصوصی بنچ تشکیل دینے کا اختیار جو اعلیٰ عدلیہ میں تقسیم اور تنقید کا بنیادی سبب ہے، اس حوالے سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سمیت کئی جج صاحبان اپنے تحریری فیصلوں کے ذریعے اپنے رائے کا اظہار کرچکے ہیں مگر تاریخ کے طالب علم کی حیثیت سے میں نے یہ کھوج لگانے کی کوشش کی کہ ’سوموٹو‘کا اختیار استعمال کرنے کی روایت کب،کیسے اور کہاں سے شروع ہوئی؟

بتایا جاتا ہے کہ ان اختیارات نے آئین کے آرٹیکل 184(3)کی کوکھ سے جنم لیا۔ دستور پاکستان کی اس شق کے مطابق:

Without prejudice to the provisions of Article 199, the Supreme Court shall, if it considers that a question of public importance with reference to the enforcement of any of the Fundamental Rights conferred by Chapter I of Part II is involved have the power to make an order of the nature mentioned in the said Article.

یعنی آرٹیکل 199 میں دی گئی ہدایات پر اثر انداز ہوئے بغیر اگر عدالت عظمیٰ یعنی (سپریم کورٹ) یہ سمجھے کہ حصہ دوم کے باب نمبر ایک میں تفویض کردہ بنیادی انسانی حقوق میں سے کسی حق کے نفاذ سے متعلق عوامی اہمیت کا معاملہ درپیش ہے تو مذکورہ شق میں بیان کردہ نوعیت کا کوئی حکم صادر کرسکتی ہے۔

اب اس میں دو بنیادی شرائط اور ایک قابل غور نکتہ ہے۔ پہلی شرط یہ کہ شہریوں کے بنیادی حقوق پامال ہورہے ہوں اور دوسری شرط یہ ہے کہ معاملہ عوامی اہمیت کا ہو۔ غورطلب بات یہ ہے کہ یہاں آئین میں ’سپریم کورٹ‘ کا لفظ لکھا گیا ہے’چیف جسٹس‘ کا ذکر نہیں ہے اور سپریم کورٹ سے مراد اس کے تمام جج صاحبان پر مشتمل ایک اجتماعی اختیار ہے ناں کہ کوئی انفرادی استحقاق۔

سپریم کورٹ  Mustafa Impex case میں یہ فیصلہ دے چکی ہے کہ وفاقی حکومت سے مراد وزیراعظم اور اس کی کابینہ ہے، وزیراعظم اکیلے کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا۔ معاملہ کچھ یوں تھا کہ حکومت نے 4 اپریل اور 30 مئی 2013ء کو جاری کیے گئے نوٹیفکیشن کے ذریعے موبائل فون درآمد کرنے والی کمپنیوں کوسیلز ٹیکس میں دی گئی چھوٹ ختم کردی۔ ان کمپنیوں نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی تو ریلیف نہیں ملا۔ سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا تو جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رُکنی بنچ ، جس میں جسٹس مقبول باقر اور جسٹس اقبال حمید الرحمان شامل تھے، نے 18 اگست 2016ء کو دیے گئے فیصلے میں ان احکامات کا کالعدم قرار دے دیا۔ جسٹس ثاقب نثار نے اپنے تحریری فیصلے میں شاہ لوئی XIV کا مشہور جملہ ’میں ہی ریاست ہوں‘ نقل کرتے ہوئے لکھا کہ وزیراعظم چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے خود فیصلے نہیں کرسکتا بلکہ اس کا کام کابینہ کے فیصلوں پر عملدر آمد کروانا ہے۔ لہٰذا یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ آئین کے آرٹیکل 184(3)کے تحت اگر سپریم کورٹ کو بعض خصوصی اختیارات دیے گئے ہیں تو ان پر کسی فرد واحد کا استحقاق نہیں ہے۔

دوسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ آئین کا آرٹیکل 184(3) ہو یا پھر 1980ء میں بنائے گئے سپریم کورٹ کے قواعد و ضوابط، ان میں کہیں بھی لاطینی زبان کے لفظ ’سوموٹو‘ یا ازخود نوٹس کا ذکر نہیں ملتا۔ حقیقت یہ ہے کہ 1973ء میں دستور منظور ہونے سے ضیاالحق کی موت کے بعد بینظیر بھٹو کے وزیراعظم بن جانے تک کے عرصہ میں کسی کے وہم وگمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ اس اختیار کو ’ازخود نوٹس‘ کی شمشیر برہنہ کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔

آئین کے آرٹیکل 184(3)کی تعبیر وتشریح یہ کی جاتی تھی کہ اگر کوئی درخواست گزار بنیادی انسانی حقوق پامال ہونے سے متعلق عوامی اہمیت کا کوئی معاملہ لیکر زنجیر عدل ہلائے تو تب سپریم کورٹ اس اختیار کو استعمال کرسکتی ہے۔یعنی کوئی درخواست دائر ہوئے بغیر از خود نوٹس لینے کا تصور نہیں تھا۔

2 دسمبر 1988ء کو بینظیر بھٹو نے بطور وزیراعظم حلف اُٹھایا تو یحییٰ بختیار جو ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں اٹارنی جنرل کے طور پر کام کرتے رہے، انہیں ایک بار پھر اس منصب پر تعینات کیا گیا۔ وزارتِ قانون نے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے اعلیٰ عدلیہ کے 42 جج صاحبان کو کام کرنے سے روک دیا۔ اس کا جواز یہ پیش کیا گیا کہ پاکستان کے آئین کے مطابق وزیراعظم کا ہونا ضروری ہے۔ 29 مئی 1988ء کو وزیراعظم محمد خان جونیجو کی کابینہ تحلیل ہو جانے سے 2 دسمبر 1988ء سے لے کر بینظیر بھٹو کے حلف اُٹھانے تک ملک میں کوئی وزیر اعظم نہیں تھا، لہٰذا جن افراد کو اس دوران جج بنایا گیا، ان کی تعیناتی غیر آئینی ہے۔ جسٹس محمد حلیم جو اس وقت چیف جسٹس تھے، ان کے صاحبزادے اکمل وسیم ایڈووکیٹ کے مطابق اس پر سپریم کورٹ نے پہلی مرتبہ از خود نوٹس لیا اور پھر جب اکرم شیخ ایڈووکیٹ نے پٹیشن دائر کی تو اس از خود نوٹس کی کارروائی کو اس درخواست سے جوڑ دیا گیا۔ سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اکرم شیخ ایڈووکیٹ جو تب ہائیکورٹ بار کے صدر اور بار کونسل کے رُکن تھے، ان کے مطابق از خود نوٹس نہیں لیا گیا بلکہ ان کی طرف سے دائر کی گئی درخواست پر وزارتِ قانون کے نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دیتے ہوئے 42 جج صاحبان کو بحال کر دیا گیا۔تو پھر آخر از خود نوٹس کا دروازہ کب اور کیسے کھلا؟

جب جسٹس افضل ظلہ چیف جسٹس تھے تو ایک بھٹہ مزدور کی طرف سے چیف جسٹس کو خط لکھا گیا۔ بھٹہ مالکان ان مزدوروں کو معاوضہ دے کر اہلخانہ کو گروی رکھ لیا کرتے تھے۔ اس ظلم و جبر پر سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا اور یہ کیس جو درشن مسیح کے نام سے مشہور ہوا، عاصمہ جہانگیر نے بطور وکیل اس کی پیروی کی۔ جسٹس ظلہ کے دور میں شروع ہونے والی اس روایت کو جسٹس سجاد علی شاہ نے نئی جہت بخشی۔ یوں تو انہوں نے کئی معاملات پر سوموٹو اختیار استعمال کیا لیکن سب سے مشہور کیس واسا حکام کی گرفتاری کا ہے۔ نوازشریف دوسری بار وزیراعظم بنے تو فیصل آباد میں واٹر اینڈ سیورج بورڈ کے چند افسر جن پر گھپلوں اور سرکاری فنڈز میں خورد بُرد کا الزام تھا، انہیں وزیر اعظم کے حکم پر ہتھکڑی لگا کر گرفتار کر لیا گیا اور یہ مناظر پی ٹی وی پر بھی نشر ہوئے۔ چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے اس پر از خود نوٹس لے لیا۔

جسٹس سجاد علی شاہ کی رخصتی کے بعد کچھ عرصہ یہ شمشیر نیام میں رکھ لی گئی مگر جسٹس افتخار چودھری کے دور میں اس کی دھار تیز کرکے شمشیر زنی کا فقید المثال مظاہرہ کیا گیا۔ جسٹس ثاقب نثار قاضی القضا کے منصب پر براجمان ہوئے تو انہوں نے نئی تاریخ رقم کرنے کی کوشش میں ازخود نوٹس کی یہ تلوار دونوں ہاتھوں سے استعمال کرکے بھرپور توجہ حاصل کی۔

اب وقت آگیا ہے کہ ’سوموٹو‘ کی اس شمشیر برہنہ سے متعلق کوئی ضابطہ اخلاق بنایا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ پارلیمان نے بجا طور پر ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023‘ منظور کیا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp