سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63اے کی تشریح کے خلاف نظرثانی درخواست پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی، اس دوران 14 اکتوبر 2022 کو جاری ہونے والے 63 اے تفصیلی فیصلے سے متعلق رجسٹرار کی رپورٹ بھی عدالت میں پیش کی گئی۔ تاہم، پی ٹی آئی کے وکلا کی جانب سے بینچ کی تشکیل پر اٹھائے جانے والے اعتراضات کو ججز کی جانب سے مسترد کیا گیا اور بینچ کی تشکیل کو قانونی قرار دیا گیا۔ سماعت ملتوی کرنے سے پہلے چیف جسٹس نے پنجاب حکومت کو بیرسٹر علی ظفر اور عمران خان کی ملاقات یقینی بنانے کی ہدایت بھی کی۔
پنجاب حکومت بیرسٹر علی ظفر کی عمران خان سے ملاقات یقینی بنائے، چیف جسٹس
آرٹیکل 63 اے سماعت کے دوران بانی پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر مسلسل بینچ کی قانونی حیثیت پر سوالات اٹھاتے رہے، بینچ کی قانونی حیثیت بارے فیصلے اور اعتراض مسترد ہونے کے بعد بھی وہ کہتے رہے کہ اس فیصلے کے آتھر (مصنف) جج کا بینچ میں موجود ہونا ضروری ہے، ورنہ کون گزشتہ فیصلے کا دفاع کرے گا۔ جس پر جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ آتھر جج تو کم سے کم بولنے کی کوشش کرتا ہے اور دوسرے ججز کو سوالات کا موقع دیتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایک معاملہ طے ہو چکا ہے اب آپ مقدمے کے میرٹس پر دلائل دیں، جس پر علی ظفر نے کہا کہ وہ اپنے کلائنٹ عمران خان سے مشورہ کیے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ آج مل لیں کل دوبارہ مقدمے کی سماعت کریں گے۔ علی ظفر نے کہا کہ میری بانی چیئرمین پی ٹی آئی سے ملاقات کو یقینی بنایا جائے جس پر چیف جسٹس نے پنجاب حکومت کو ہدایت کی کہ علی ظفر کی ملاقات کو یقینی بنایا جایا اور پھر سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔
آج کی سماعت کا احوال
اس سے قبل سماعت شروع ہوئی تو صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت روسٹرم پر آگئے، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے تو دلائل مکمل ہوگئے تھے، شہزاد شوکت نے کہا کہ تفصیلی فیصلے کے انتظار میں نظرثانی دائر کرنے میں تاخیر ہوئی، جسٹس جمال خان مندوخیل بولے کہ عام بندے کا کیس ہوتا تو بات اور تھی، کیا سپریم کورٹ بار کو بھی پتا نہیں تھا نظرثانی کتنی مدت میں دائر ہوتی ہے۔
صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت نے کہا کہ مفاد عامہ کے مقدمات میں نظرثانی کی تاخیر کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے، مفادِعامہ کے مقدمات کو جلد مقرر بھی کیا جاسکتا ہے، نظرثانی 2سال سے سماعت کے لیے مقرر نہیں ہوئی تھی۔ وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ نظرثانی درخواست تاخیر سے دائر ہوئی جس کے باعث مقرر نہیں ہوئی۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ میں پہلے ایک بیان دے دوں، جس پر چیف جسٹس بولے کہ عدالت میں بیان نہیں گذارشات سنتے ہیں، بیان ساتھ والی عمارت پارلیمنٹ میں جا کر دیں۔ آپ بتائیں نظرثانی فیصلے کے خلاف ہوتی ہے یا اس کی وجوہات کے خلاف ہوتی؟
دوران سماعت وکیل سید مصطفین کاظمی روسٹرم پر آگئے، چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آپ کس کی طرف سے ہیں، وکیل مطفین کاظمی بولے کہ میں پی ٹی آئی کی نمائندگی کر رہا ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ بیٹھ جائیں، آپ نہیں بیٹھ رہے تو پولیس اہلکار کو بلا لیتے ہیں۔ وکیل بولے کہ آپ کر بھی یہ ہی سکتے ہیں۔
وکیل سید مصطفین کاظمی نے چیف جسٹس کو دھمکیاں
وکیل سید مصطفین کاظمی نے چیف جسٹس کو دھمکی دی کہ باہر 500 وکیل کھڑے ہیں ہم دیکھتے ہیں آپ ہمارے خلاف کیسے فیصلہ کرتے ہیں، چیف جسٹس نے شدید اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ بلائیں پولیس کو، نکالیں ان کو باہر۔ سید مصطفین کاظمی بولے کہ میرا تعلق پی ٹی آئی سے ہے، آپ نے غیر قانونی بینچ بنایا ہوا ہے، آپ کے بینچ میں نعیم اختر افغان اور ایک اور جج غیر قانونی بیٹھے ہیں۔
مصطفین کاظمی کو کمرہ عدالت سے باہر نکال دیا گیا
دوران سماعت سید مصطفین کاظمی نے بلند آواز میں بولنا شروع کیا، جس پر چیف جسٹس نے بیرسٹر علی ظفر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مسٹر علی ظفر یہ کیا رویہ ہے، علی ظفر بولے کہ سر میں ان کے رویے کا ذمے دار نہیں ہوں، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ذمے دار ہیں کیونکہ ان کا تعلق آپ کی جماعت سے ہے۔ یہ کس طرح کا پاکستان بنا رہے ہیں، تباہ کردیں سب اداروں کو، آج یوٹیوبرز کو مصالحہ مل گیا ہے۔
سید مصطفین کاظمی بولے کہ یہ غیر قانونی بینچ ہے، یہ سب کیا ہورہا ہے؟ سپریم کورٹ بار کا اس کیس سے کیا تعلق ہے؟ چیف جسٹس نے بیرسٹر علی ظفر کو مخاطب کیا کہ بیرسٹر علی ظفر صاحب یہ کیا ہورہا ہے؟ آپ آئیں اور ہمیں بے عزت کریں؟ ہم یہ ہرگز برداشت نہیں کریں گے۔ علی ظفرنے جواب دیا کہ میں تو بڑے آرام سے بحث کرہا تھا اور آپ بھی آرام سے سن رہے تھے۔
بیرسٹر علی ظفر نے مصطفین کاظمی کے رویے پر معذرت کرلی، چیف جسٹس کی سول کپڑوں میں پولیس اہلکاروں کو ہدایت کی کہ اس جینٹل مین کو باہر نکالیں۔ جس کے بعد عدالتی عملے نے سید مصطفین کاظمی کو کمرہ عدالت سے باہر نکال دیا۔
فاروق ایچ نائیک کے دلائل
فاروق ایچ نائیک نے اپنے دلائل میں کہا کہ آرٹیکل 63 اے فیصلہ نہیں، صدارتی ریفرنس پر رائے تھی، اس رائے پر فیصلے کی طرح عملدرآمد لازمی نہیں، فلور کراسنگ پر دنیا میں نااہلی تو ہے مگر ووٹ گنا لازمی جاتا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ تحریری دلائل دے دیں تو بہتر ہوگا۔ جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ آج کی عدالتی کارروائی دیکھ کر یقین پختہ ہوگیا کہ آئینی عدالت ہونی چاہیے۔
چیف جسٹس نے فاروق ایچ نائیک کو روکتے ہوئے کہا کہ نہیں نہیں، یہ بات یہاں نہ کریں، جسٹس جمال خان مندوخیل بولے کہ آپ وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل ہیں، آپ نے وکیل کا کنڈکٹ دیکھا؟ جس پر فاروق ایچ نائیک بولے کہ ہم انہیں نوٹس کریں گے۔
بیرسٹر علی ظفر کے دلائل
بیرسٹر علی ظفر دلائل دینے روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس مسکراتے ہوئے بولے کل کے دلائل بہت میٹھے تھے، آج کے دلائل کل سے بھی زیادہ میٹھے ہوں گے، جسٹس جمال خان بولے کہ یعنی آپ کو کل کے دلائل پسند آئے تھے۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ شیریں اور تلخ کی ملاوٹ سے ہی ذائقہ بنتا ہے۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ میں بتانا چاہتا ہوں کہ آج میں تلخ دلائل دوں گا، میں نے درخواست دائر کی لیکن سپریم کورٹ کے آفس نے منظور نہیں کی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ ہمیں درخواست کا بتا دیں، آپ نے صبح دائر کی ہوگی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ اپنے دلائل شروع کریں، علی ظفر بولے کہ یعنی آپ میری بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کی درخواست کو مسترد کر رہے ہیں، جسٹس نعیم اختر افغان بولے کہ آپ کل بھی ملاقات کرسکتے تھے، علی ظفر نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی جیل میں ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ نے مشاورت کرنی تھی تو کل بتاتے، عدالت کوئی حکم جاری کردیتی، ماضی میں ویڈیو لنک پر بانی پی ٹی آئی کو بلایاتھا، وکلا کی ملاقات بھی کروائی تھی۔ آپ نے کہا تھا آئینی معاملہ ہے، بانی پی ٹی آئی سابق وزیراعظم ہیں، درخواست گزار بھی ہیں، بانی پی ٹی آئی کو آئین کی سمجھ بوجھ ہے، بانی پی ٹی آئی کو معلوم ہے کہا کہنا ہے کیا نہیں، مجھے اجازت دیں کہ بانی پی ٹی آئی سے معاملے پر مشاورت کرلوں گا۔
وکیل علی ظفر نے سپریم کورٹ کے بینچ پر اعتراض اٹھا دیا
وکیل علی ظفر نے کہا کہ اس کیس میں فریقین کو نوٹس جاری کرنا ضروری تھا، انہوں نے اعتراض اٹھایا کہ یہ طریقہ کار درست نہیں ہے بنچ بھی قانونی نہیں۔ ابھی جو کچھ عدالت میں ہوا اس کا ذمہ دار میں نہیں ہوں میں اس معاملے پر آپ کے ساتھ ہوں مجھے اپنا دشمن نہ بنائیں، مجھے اپنے طریقے سے دلائل دینے دیں نہیں تو میں چلا جاتا ہوں۔ سپریم کورٹ طے کرچکی ہے کہ نظر ثانی کی مدت مختصر آنے کے بعد شروع ہو جاتی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم نے کل کہا تھا جو بھی آکر دلائل دینا چاہے دے، یہ اب آپ ہمیں دھمکی دے رہے ہیں۔ ایک سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے کتنے اراکان پارلیمنٹ کو جیل بھیجا؟ میرا گناہ ٹھہرا کہ میں برداشت کرتا ہوں، میری والدہ نے کہا تھا جو کہتا ہے وہی ہوتا ہے۔
’کیا نظر ثانی کو جلد سنا جانا ضروری نہیں ہوتا؟ کیا ضرورت ہوتی ہے کہ چیف جسٹس اور ان کے ججز کے ریٹائرڈ ہونے تک نظر ثانی نا لگائیں، اس وقف وہی جج فوری نظر ثانی لگا کرسن لیتے ہیں‘۔
جسٹس جمال مندوخیل بولے کہ آپ اداروں کو ایسے چلانا چاہتے ہیں روز کہا جاتا ہے ججز کے 2گروپ ہیں۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ترمیمی آرڈیننس کہتا ہے ہر سماعت کو ریکارڈ کیا جائے گا ٹرانسکرپٹ دستیاب ہوگا، اگر میرے دلائل ریکارڈ کیے جائیں تو ہی آگے بڑھوں گا۔ چیف جسٹس بولے کہ دلائل ریکارڈ ہوں گے ٹرانسکرپٹ دستیاب ہوگی۔ بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ میں نے ایک درخواست دائر کی جو سپریم کورٹ کا آفس ریکارڈ پر نہیں رکھ رہا، کل بھی کہا تھا آج بھی کہتا ہوں اپنے کلائنٹ بانی پی ٹی آئی سے ملنا چاہتا ہوں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آپ کو سن رہے ہیں اپنی بات جاری رکھیں، ہم نے نیب کیس میں بانی پی ٹی آئی کو سنا تھا۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اس کیس میں ہمیں کوئی نوٹس تک نہیں دیا گیا۔ کل عدالت نے جو طریقہ اپنایا وہ غیر قانونی ہے، ایک ہی دن سب کو اکٹھا کرکے کہہ دیا کہ کون کون نظر ثانی کی حمایت کرتا ہے۔ اس کیس میں فریقین کو نوٹس جاری کرنا ضروری تھا۔
آپ کے لہجے میں آج تک تلخی نہیں دیکھی، چیف جسٹس
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس میں یہ عدالت فیصلہ دے چکی، چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ کی جماعت نے اس ایکٹ کی مخالفت کی تھی، علی ظفر بولے دلائل میں کسی نے کیا کہا وہ اہم نہیں، آپ کا فیصلہ اہم ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ آپ کی جماعت کل پارلیمنٹ میں موجودہ آرڈیننس کو ختم کرنے کا بل لا سکتی ہے۔ چیف جسٹس بولے کہ کل آپ کی جماعت ایسا قانون بنا دے تو کیا میں کہہ سکتا ہوں مجھے پسند نہیں۔ یہ ججز کی پسند یا ناپسند کی بات نہیں۔
’قانون معطل تھا، اس کے باوجود میں نے چیف جسٹس بن کر 2سینئر ججز سے مشاورت کی، ہمارے پاس ترمیمی آرڈیننس چیلنج نہیں کیا گیا، ہم اس وقت نظر ثانی کی درخواست سن رہے ہیں‘۔
علی ظفر نے دوبارہ بینچ پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ میں آرڈیننس کی قانونی حیثیت پر بات نہیں کررہا، میں کہہ رہا ہوں بینچ کی تشکیل اس قانون کے مطابق نہیں ہوئی، قانون کہتا ہے 3رکنی کمیٹی بیٹھ کر بینچ بنائے گی۔ قانون کے مطابق بینچ کثرت رائے سے بنائے جائیں گے۔ قانون میں کمیٹی کے 2ممبران کے بیٹھ کر بینچ بنانے کی گنجائش نہیں ہے۔
علی ظفر صاحب ہمیں بھی انگریزی آتی ہے، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے علی ظفر سے کہا کہ آپ ہر دلیل پہلے انگریزی پھر اردو میں دے رہے ہیں، انگریزی ہمیں بھی آتی ہے۔ علی ظفر نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ کمیٹی میں نہیں آئے اور خط لکھ دیا، میں وہ خط پڑھنا چاہوں گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ صرف متعلقہ پیراگراف پڑھیں، آپ نے وہ خط پڑھا تو اس کا جواب بھی پڑھنا ہوگا۔ آپ ججز کو یہاں شرمندہ کرنا چاہتے ہیں۔
علی ظفر نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ نے ترمیمی آرڈیننس پر فل کورٹ کی بات کی، جو 4 رکنی بینچ 30 ستمبر کو بیٹھا وہ بینچ کسی نے تشکیل دیا ہی نہیں تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ علی ظفر صاحب آپ ججز کا انتخاب خود نہیں کرسکتے، ایسا طرز عمل تباہ کن ہے۔ کیا ماضی میں یہاں سینیارٹی پر بینچ بنتے رہے؟ آپ نے بار کی جانب سے کبھی شفافیت کی کوشش کیوں نہ کی؟
’63اے پر آپ کا ریفرنس آیا، فوری سنا گیا، اُس وقت 10 سال پرانا بھٹو ریفرنس زیر التوا تھا، بابر اعوان دونوں ریفرنسز میں بطور وکیل پیش ہوئے، شفافیت کا تقاضا تھا بابر اعوان پہلے دن کہتے پہلے پرانا ریفرنس سنیں‘۔
علی طفر نے اپنے دلائل میں کہا کہ پہلے یہ فیصلہ کریں کہ بینچ درست طور پر تشکل ہوا ہے کہ نہیں، چیف جسٹس نے علی طفر کا اعتراض مسترد کرتے ہوئے کہا کہ بینچ درست طور پر تشکیل ہوا۔ ساتھی ججوں کے ساتھ مشاورت کے بعد چیف جسٹس نے فیصلہ سنا دیا۔
وکیل علی ظفر نے موقف اختیار کیا کہ بینچ تشکیل دینے والی کمیٹی کے ممبران بینچ کا حصہ ہیں، وہ خود کیسے بینچ کی تشکیل کو قانونی قرار دے سکتے ہیں؟ چیف جسٹس نے جواب دیا کہ اگر ایسا ہو تو ججز کمیٹی کے ممبران کسی بینچ کا حصہ ہی نہ بن سکیں، آپ ہمیں باتیں سناتے ہیں تو پھر سنیں بھی۔ ہم پاکستان بنانے والوں میں سے ہیں، توڑنے والوں میں سے نہیں۔
’ہم نے وہ مقدمات بھی سنے جو کوئی سننا نہیں چاہتا تھا، پرویز مشرف کا کیس بھی ہم نے سنا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ میں 63 اے کیس میں بینچ کا حصہ تھا، کیا اب میں نظر ثانی بینچ میں بیٹھنے سے انکار کر سکتا ہوں؟ کیا ایسا کرنا حلف کی خلاف ورزی نہیں ہوگی؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بولے کہ یہاں تو فیصلوں کو رجسٹرار سے ختم کروایا جاتا رہا، میں نے بینچ میں انہی ججز کو شامل کرنے کی کوشش کی، کسی کو مجبور نہیں کرسکتا۔ فل کورٹ سے مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ لوگوں کو یہاں مرضی کے بینچ کی عادت ہے۔
’وہ زمانے چلے گئے، اب شفافیت آچکی ہے، اب آمریت نہ ملک میں ہے اور نہ ہی اداروں میں ہوگی‘۔
علی ظفر بولے کہ بہت اچھی بات ہے سر، چیف جسٹس نے کہا کہ اچھی بات نہ کہیں، پہلے سابقہ کاموں کا کفارہ کریں، اب ہم جو کرتے ہیں بتا دیتے ہیں، سابقہ دور واپس نہیں آنے دیں گے۔ کیا ہمارے پاس اختیار ہے کہ زبردستی کسی کو پکڑ کر بینچ میں لائیں؟
علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں، نظر ثانی اپیل میں فیصلے لکھنے والے جج کی موجودگی لازم ہے، اس کیس میں اتنی جلدی کیا ہے؟ پہلے بیٹھ کر اپنے رولز بنالیں۔
چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے سب نظر ثانی کے مقدمات لگا دیے ہیں، آپ نے میرٹ پر ایک بات نہیں کی۔
عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان کو ملاقات کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ کوشش کریں آج رات تک ملاقات ہو جائے، جس کے بعد کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔