طالبان کے ساتھ دوحہ میں ہوئے معاہدے کے بعد امریکی افواج کے افغانستان سے عجلت میں کیے انخلا نے جہاں دنیا بھر میں امریکی وقار کو نقصان پہنچایا وہیں خود امریکا میں بھی اس ہنگامی انخلا کا شدید منفی اثر پڑا تھا۔
امریکا کا افغانستان سے یوں نکلنا کسی فرار سے کم نہیں تھا جس نے اس کو ایسی نفسیاتی زک پہنچائی ہے کہ امریکا ابھی تک اس نفسیاتی شکست سے نہیں نکل سکا ہے۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں طالبان سے شروع ہونے والے مذاکرت 2020 میں اس وقت نتیجہ خیز ہوئے جب امریکا پر صدر جو بائیڈن حکومت کر رہے تھے، کہنے کو تو یہ معاہدہ افغانستان سے ایک باعزت پسپائی تھی مگر یہ صورتحال اس وقت ہولناک ہوگئی جب اگست 2021ء میں امریکا اس حالت میں افغانستان سے نکلا کہ کابل پر طالبان نے بنا لڑے ہی قبضے کر لیا تھا۔
اس موقع پر افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے آخری دنوں میں مایوس کن مناظر دیکھنے میں آئے۔ اور اسے امریکا کی ویت نام کی سی پسپائی سے تعبیر کیا گیا۔ اور اس ہزیمت کا سارا ملبہ ڈیموکریٹ پارٹی اور اس کے صدر جو بائیڈن پر آن گرا۔
اب قریب ڈیڑھ سال بعد امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے ایک نئی رپورٹ میں افغانستان سے انخلا کا الزام اپنے پیشرو ڈونلڈ ٹرمپ عائد کر دیا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی انتظامیہ کی جاری کردہ روپورٹ کے بارہ صفحات پر مشتمل خلاصے میں کہا گیا ہے کہ مسٹر بائیڈن مسٹر ٹرمپ کے فیصلوں کی وجہ سے ’شدید مجبور‘ تھے، جس میں جنگ کے خاتمے کے لیے طالبان کے ساتھ 2020 کا معاہدہ بھی شامل تھا۔
رپورٹ میں یہ بھی تسلیم کیا گیا ہے کہ حکومت کو شہریوں کا انخلا پہلے ہی شروع کر دینا چاہیے تھا۔
اس حوالے سے گزشتہ روز صدر بائیڈن کے قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے ٹرمپ انتظامیہ پر وراثت میں ملنے والے افغانستان میں ناکام آپریشن پر افراتفری کا الزام لگایا۔
رپورٹ میں ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے ’نظر اندازی اور بعض صورتوں میں جان بوجھ کر انحطاط‘ کا حوالہ دیا گیا ہے۔
ترجمان نے وضاحت کی کہ ’اس جملے سے مراد اس معاہدے کی طرف اشارہ ہے جو سابق صدر نے ایک سال قبل قطر میں باغیوں کے ساتھ جنگ کے خاتمے کے لیے کیا تھا۔
رپورٹ کے اجرا کے چند گھنٹوں کے اندر ہی سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر جوابی حملہ کرتے ہوئے وہائٹ ہاؤس انتظامیہ پر الزام لگایا کہ وہ ’ایک نئی غلط معلومات کا کھیل کھیل رہے ہیں، اور افغانستان میں اپنی انتہائی نااہلی کے لیے ’ٹرمپ‘ کو قصور وار ٹھہرا رہے ہیں۔
عجلت میں ہونے والے اس انخلا کے دوران 13 امریکی فوجی اور تقریباً 200 افغان مارے گئے جب کہ امریکی فوجیوں نے چند دنوں میں 120,000 سے زیادہ لوگوں کو بحفاظت نکالنے کے لیے جدوجہد کی۔
جب افغان حکومت کا خاتمہ ہوا تو کابل کے ہوائی اڈے پر مایوس کن مناظر تھے جب بہت بڑا ہجوم طالبان سے بھاگنے کی کوشش کر رہا تھا۔
26 اگست 2021کو ہوائی اڈے پر دو خودکش حملہ آوروں کے حملے میں 170 افغان اور 13 امریکی فوجی مارے گئے۔
واضح رہے کہ کانگریس کو بھیجی گئی یہ رپورٹ محکمہ خارجہ اور پینٹاگون کے جائزوں پر مشتمل ہے جو انخلا کے فیصلوں اور اقدامات سے متعلق ہیں۔اور اس رپورٹ میں خود صدر بائیڈن کا ’ان پُٹ‘ بھی شامل ہے۔
امریکی ایوان نمائندگان میں ریپبلکنز، جو کہ افغانستان سے امریکی انخلا کی تحقیقات کر رہے ہیں، کئی ہفتوں سے رپورٹ کو دیکھنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔
واضح رہے کہ اس طرح کی رپورٹس کو خفیہ دستاویزات کا درجہ حاصل ہوتا ہے، تاہم رپورٹ کے نتائج کا خلاصہ عوام کے لیے فراہم کر دیا گیا ہے۔