اسلام آباد کی 3 نمائندہ بار ایسوسی ایشنز، اسلام آباد ہائیکورٹ بار، اسلام آباد ڈسٹرکٹ بار اور اسلام آباد بار کونسل نے وفاقی حکومت کے مجوزہ آئینی پیکیج کو مسترد کرتے ہوئے مزاحمت کا اعلان کیا ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ بار، اسلام آباد ڈسٹرکٹ بار اور اسلام آباد بار کونسل کے صدور نے آج ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں آئینی پیکج کے خلاف 7 اکتوبر کو دن 11 بجے آل پاکستان وکلا کنونشن کرانے کا اعلان بھی کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: عدلیہ کی آزادی کے بعد صرف وردی والے آئینی ترمیم کرسکتے ہیں، بلاول بھٹو
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اسلام آباد بار کونسل کے صدر علیم عباسی نے کہا کہ آئینی ترامیم کے مجوزہ ڈرافٹ سے متعلق گزشتہ روز اسلام آباد کی تمام بار کونسلز کا اجلاس منعقد ہوا تھا جس میں آئینی ترامیم کے معاملے پر مشاورت ہوئی تھی۔
علیم عباسی نے کہا کہ ہم ان ترامیم کو نہ صرف مسترد کرتے ہیں بلکہ انہیں روکنے کے لیے مزاحمت بھی کریں گے، مخصوص شخصیات کے لیے مخصوص سیاسی جماعتوں بدنیتی پر مبنی ترامیم کررہی ہیں، ان ترامیم کے بعد سپریم کورٹ کے پاس سیشن جج سے زیادہ کا اختیار نہیں ہو گا۔
یہ بھی پڑھیں: موجودہ پارلیمنٹ آئینی ترمیم کا حق نہیں رکھتی، ہم نے بتا دیا ہے ہمیں ہلکا مت لیں، مولانا فضل الرحمان
انہوں نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن سے آرٹیکل 63 اے پر نظرثانی درخواست واپس لینے کا بھی مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ بار اسٹیک ہولڈر نہیں تو پھر کیوں نظرثانی دائر کررہی ہے، کوئی پارٹی نظر ثانی کرے تو بات سمجھ میں آتی ہے، آپ تو باسٹیک ہولڈر ہی نہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو 6 ججز کا خط پسند نہیں آیا تو ان کو ٹھکانے لگانے کے لیے ترامیم کی جارہی ہیں، یہ آئینی ترامیم آمرانہ قوتوں کی خواہش اور آمریت پسندانہ سوچ کی غمازی کرتی ہیں، مجوزہ آئینی ترامیم کے ذریعے جوڈیشل کا وجود ہی ختم کردیا گیا، ہم شروع دن سے کہہ رہے ہیں کہ سینیئر ترین جج چیف جسٹس بنے گا۔
یہ بھی پڑھیں: مجوزہ آئینی ترامیم کیخلاف درخواست سپریم کورٹ میں دائر
راجہ علیم عباسی نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن کے 13 میں سے 7 لوگ موجودہ حکومت کے ہوں گے، اس سازش میں چیف جسٹس سہولت کار کا کردار ادا کر رہے ہیں، عمر کی حد 68 سال رکھ کر رستہ کھولا گیا کہ آپ ہمارے ساتھ ہوں گے تو ہم آپ کو نوازیں گے، اس ترمیم کے پاس ہونے کے بعد کوئی باضمیر جج سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ میں کام نہیں کرسکے گا۔