آرٹیکل 63 اے آئین پاکستان کا وہ آرٹیکل ہے جو فلور کراسنگ اور ہارس ٹریڈنگ روکنے کے لیے متعارف کرایا گیا تھا جس کا مقصد اراکین اسمبلی کو اپنے پارٹی ڈسپلن کے تابع رکھنا تھا کہ وہ پارٹی پالیسی سے ہٹ کر کسی دوسری جماعت کو ووٹ نہ کرسکیں اور اگر وہ ایسا کریں تو ان کی اسمبلی رکنیت ختم ہوجائے گی۔
آئین کے آرٹیکل 63 اے کے مطابق اگر رکن پارلیمنٹ وزیراعظم یا وزیراعلیٰ کے انتخابات کے لیے اپنی پارلیمانی پارٹی کی جانب سے جاری کردہ کسی بھی ہدایت کے خلاف ووٹ دیتا ہے یا عدم اعتماد کا ووٹ نہیں دیتا تو اس سے نااہل قرار دیا جاسکتا ہے۔
آرٹیکل میں کہا گیا ہے کہ اس سلسلے میں پارٹی سربراہ کو تحریری طور پر اعلان کرنا ہوگا کہ متعلقہ رکن اسمبلی منحرف ہوگیا ہے تاہم ریفرنس دائر کرنے سے پہلے پارٹی سربراہ منحرف رکن کو وضاحت دینے کا موقع فراہم کرے گا۔
یہ بھی پڑھیں: آرٹیکل 63 اے نظرثانی اپیل: سپریم کورٹ نے متفقہ طور پر اکثریتی بینچ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا
وضاحت سے مطمئن نہ ہونے کی صورت میں پارٹی کا سربراہ متعلقہ ایوان کے اسپیکر کو اعلامیہ بھیجے گا اور اسپیکر وہ اعلامیہ چیف الیکشن کمشنر کو بھیجے گا، ریفرنس موصول ہونے کے 30 دن میں الیکشن کمیشن کو اس ریفرنس پر فیصلہ دینا ہوگا۔
آرٹیکل کے مطابق اگر چیف الیکشن کمشنر کی طرف سے ریفرنس کے حق میں فیصلہ آجاتا ہے تو مذکورہ رکن ایوان کا حصہ نہیں رہے گا اور اس کی نشست خالی ہوجائے گی۔
صدر عارف علوی نے فلور کراسنگ سے متعلق سپریم کورٹ کو صدارتی ریفرنس کب بھیجا؟
فروری 2022 میں سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی نے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت ایک صدارتی ریفرنس کے ذریعے سے سپریم کورٹ آف پاکستان سے سوال پوچھا تھا کہ جب ایک رکن اسمبلی اپنی پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالتا ہے تو وہ بطور رکن اسمبلی نااہل ہو جاتا ہے، لیکن کیا کوئی ایسا طریقہ بھی ہے کہ اس کو ووٹ ڈالنے سے ہی روک دیا جائے۔
فروری میں اس صدارتی ریفرنس کی سماعت شروع ہوئی اور اس کے بعد 17 مئی 2022 کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے 3، 2 کی اکثریت سے قرار دیا کہ پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالنے والا نہ صرف اسمبلی رکنیت سے نااہل ہوگا بلکہ اس کا ووٹ بھی شمار نہیں ہوگا۔
یہ پڑھیں: آرٹیکل 63 اے تشریح کیس: جسٹس منیب اختر نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو ایک اور خط لکھ دیا
سابق چیف جسٹس، جسٹس عمر عطاء بندیال اس بینچ کی سربراہی کر رہے تھے۔ ان کے ساتھ جسٹس منیب اختر اور جسٹس اعجازالاحسن نے اس فیصلے کی تائید کی۔ جبکہ بینچ میں شامل جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے فیصلے سے اختلاف کیا۔
نظرثانی اپیلوں پر سماعت کب مقرر کی گئی؟
تاہم، سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آرٹیکل 63 اے پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کیں۔ سپریم کورٹ کی پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی نے نظر ثانی درخواستیں 30 ستمبر کو سننے کا فیصلہ کیا، اور چیف جسٹس کی سربراہی میں 5رکنی بینچ تشکیل دیا گیا۔
آرٹیکل 63اے نظرثانی اپیلوں پر تیسری سماعت کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے وکلا کی جانب سے 5رکنی بینچ کو غیر قانونی قرار دیا گیا اور عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کردیا گیا۔
جس کے بعد سپریم کورٹ کے 5ججز نے متفقہ طور پر آرٹیکل 63اے نظرثانی اپیل منظور کرتے ہوئے، منحرف اراکین کا ووٹ شمار نہ کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔
مزید پڑھیں: آرٹیکل 63 اے فیصلے پر نظر ثانی کے اثرات کیا ہوں گے؟
واضح رہے آرٹیکل 63 اے کو اسمبلی میں انحراف یا فلور کراسنگ سے متعلق 2010 میں آئین میں داخل کیا گیا تھا کہ اگر کوئی بھی پارلیمانی پارٹی کا رکن پارلیمانی پارٹی کی طرف سے جاری کردہ ہدایت کے برخلاف ووٹ کاسٹ کرتا ہے تو پارٹی سربراہ کی طرف سے اسے تحریری طور پر سیاسی پارٹی سے منحرف ہونے کا اعلان کیا جا سکتا ہے۔
پارٹی اور پارٹی سربراہ اعلامیہ کی ایک کاپی پریذائیڈنگ آفیسر اور چیف الیکشن کمشنر کو بھیج سکتے ہیں اور اسی طرح ایک کاپی متعلقہ ممبر کو بھیجی جائے گی۔ آرٹیکل 63 اے کا مقصد قانون سازوں کو پارٹی سربراہ کے فیصلے کا پابند بنا کر ان کے ووٹنگ کے اختیارات کو محدود کرنا ہے۔