سپریم کورٹ کے گزشتہ روز آرٹیکل 63اے نظرثانی کیس کے فیصلے کے بعد قومی اسمبلی میں آئینی ترمیمی بل کے پاس ہونے کی راہ ہموار ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ اس سے قبل مولانا فضل الرحمان سیاسی جماعتوں کی آنکھ کا تارا بنے ہوئے تھے، کیونکہ یہ قانون سازی اتفاق رائے کے بغیر ممکن نہیں تھی۔ ماہرین کے مطابق آئینی ترمیم اب لازمی منظور ہو جائے گی، لیکن اس حوالے سے یہ سوال اب بھی موجود ہے کہ کیا مولانا فضل الرحمان کی سیاسی اہمیت کم ہوگئی ہے؟
خیال رہے گزشتہ روز سپریم کورٹ کے 5رکنی بینچ نے آرٹیکل 63اے نظرثانی اپیل منظور کرتے ہوئے، منحرف اراکین کا ووٹ شمار نہ کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔ سپریم کورٹ نے 5 صفر سے آرٹیکل 63 اے کا فیصلہ کالعدم قرار دیا۔
مزید پڑھیں: موجودہ پارلیمنٹ آئینی ترمیم کا حق نہیں رکھتی، ہم نے بتا دیا ہے ہمیں ہلکا مت لیں، مولانا فضل الرحمان
سپریم کورٹ کا فیصلہ اور سیاسی تجزیہ کاروں کی رائے
ماجد نظامی نے وی نیوز کو بتایا کہ حکومت اور دیگر ریاستی ادارے آئینی ترمیم کے حوالے سے ایک سے زائد آپشنز پر غور کر رہے تھے۔ پہلا یہ کہ مولانا فضل الرحمان اور دیگر جماعتوں کو ساتھ ملایا جائے۔ دوسرا یہ کہ معطل شدہ مخصوص نشستیں دوبارہ حاصل کی جائیں۔ تیسرا یہ کہ 63 اے کے معاملے پر سپریم کورٹ سے ریلیف حاصل کیا جائے۔
موجودہ حالات میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ہارس ٹریڈنگ کے امکانات واضح طور پر بڑھ گئے ہیں، تحریک انصاف یا سنی اتحاد کونسل کے ممبران اسمبلی کو لالچ یا خوف کے ذریعے ترمیم کے حق میں ووٹ دینے پر آمادہ کیا جائے گا۔ اگر لوٹا کریسی یا ہارس ٹریڈنگ کا راستہ اپنایا گیا تو یقیناً مولانا فضل الرحمان اور انکی جماعت کی پارلیمانی اہمیت میں کمی واقع ہوگی۔
’مولانا کی حمایت ہو یا نہ ہو، آئینی ترمیم ہو جائے گی لیکن تاریخ میں یہ ہارس ٹریڈنگ ایک بدنما داغ کے طور پر مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور ریاستی اداروں کا پیچھا کرے گی‘۔
سیاسی تجزیہ کار محمد عثمان نے وی نیوز کو بتایا کہ اس فیصلے سے مولانا فضل الرحمان کی سیاسی اہمیت اب بھی برقرار ہے۔ کیونکہ یہ قانون سازی اتفاق رائے کے بغیر ممکن ہی نہیں تھی۔
انہوں نے کہا لیکن اہم بات تو یہ ہے کہ حکومت، مخالف پارٹی کے اراکین کو کیا آفر کرے گی، کیونکہ ماضی میں بھی منحرف اراکین کے ساتھ جو کچھ ہوا سب جانتے ہیں، عوام نے انہیں ووٹ نہیں دیا اور وہ ناکام ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں: مولانا فضل الرحمان آئینی عدالت کے قیام کے حق میں ہیں، عرفان صدیقی
’تو ان تمام اراکین کی جانب سے یہ سیاسی خودکشی کے برابر ہوگا، اگر پی ٹی آئی کے اراکین دوسری پارٹی میں شمولیت اختیار کرتے ہیں۔ یہ ترمیم تو لازمی اب منظور ہو جائے گی‘۔
جمعیت علمائے اسلام کے سینئر رہنما اور سینیٹر کامران مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ اس فیصلے سے کسی کی بھی سیاسی اہمیت کم نہیں ہوئی اور نہ ہی اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مگر اس کے بعد جب منڈیاں لگیں گی اور خریدوفروخت ہوگی، اس کے بعد حکومت کتنا وزن رکھتی ہے، یہ چیز معنی رکھتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس فیصلے کی بنیاد پر ماضی کے معاملات پر غور کرنا ہوگا۔ جس سے مستقبل کی بھی بہت سی چیزوں کی سمجھ آنا شروع ہو جائے گی۔