المیہ

ہفتہ 5 اکتوبر 2024
author image

احمد ولید

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان میں سیاسی بے چینی، دہشت گردی، امن و امان کی ابتر صورتحال اور  آئے روز حادثات ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتے۔ آئے روز  نئے طوفان کھڑے ہو جاتے ہیں۔ عوام سوشل میڈیا پر اپنے جذبات کا کھل کر اظہار کرتے ہیں۔ نیوز ٹی وی چینلز سیاسی بیانات سے کھیلتے ہیں۔ عدلیہ کے اندرونی خلفشار بالکل عیاں ہیں۔ کسی پر الزام ہے کہ عمران خان کی حمایت میں فیصلے کرتا ہے، تو کوئی کہے گا اسٹیبلشمنٹ یا حکومت ججوں پر اپنی مرضی کے فیصلے لینے کے لیے دباؤ ڈالتی ہے۔

ایک ہنگامہ برپا ہے۔ اس ہنگامے نے عوام میں چڑچڑا پن پیدا کر دیا ہے۔ اگرچہ سوشل میڈیا پر ایسا لگتا ہے کہ ایک جنگ شروع ہے جو ختم نہیں پا رہی۔ مگر لوگ اب مایوس ہو کر اپنے کام میں مصروف رہنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہیں اپنے نوکری اور کاروبار کی زیادہ فکر ہے تاکہ وہ اپنے خاندان کے لیے اس مہنگائی کے دور ہیں اخراجات کا مناسب بند و بست کرسکیں۔ نوجوان دو دو جگہ پر کام کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں اور بے شمار لوگ پہلے ہی دو دو نوکریاں کر کے گھر والوں کو پیٹ پال رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:دفاع اور معیشت

اب تو تحریک انصاف کے حمایتی بھی زیادہ بحث و تکرار کرنے سے کتراتے ہیں۔ مہنگائی کی وجہ سے حکومت کی اتحادی جماعتوں کا ووٹر بھی بہت تنگ ہے۔ عوام کو محسوس ہونا شروع ہو گیا ہے کہ سب لڑائیاں طاقت اور اقتدار کی خاطر لڑی جا رہی ہیں۔ کسی پر اعتبار کرنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ لوگ انصاف کے لیے عدالتوں میں دھکے کھاتے ہیں کہ ’معزز‘ جج صاحبان انہیں انصاف دلا سکیں۔ عدلیہ میں بڑھتی تقسیم سے صاف نظر آنا شروع ہو گیا ہے کہ عوام کو انصاف دلانے والی سب سے بڑی عدالت میں اگر یہ سب ہو رہا ہے تو نچلی عدالتوں میں پہلے ہی بہت برا حال ہے۔

کسی شہری کی زمین یا مکان کا مسئلہ ہو تو ہر کوئی اسے مشورہ دے گا کہ کیس مت کرنا کیونکہ وہاں انصاف ملنے والا نہیں ہے۔ ہر بڑی عدالت عوامی کارروائیاں چھوڑ کر ایسی درخواست کو ترجیح دیتی ہے جہاں بڑی بڑی خبریں بنتی ہیں۔ جج صاحبان ایسے ایسے احکامات دیتے ہیں جن پر عمل درآمد ممکن ہی نہیں ہوتا۔ خور و نوش کی اشیا کے دام عدالت مقرر کرے گی تو کبھی نجی اسکولوں کو بسیں چلانے کے احکامات دے گی۔ ان سب پر عملدرآمد ہو یا نہ ہو مگر ایسی درخواست کی ہر پیشی پر ان کے احکامات یا ریمارکس بڑی بڑی خبریں ہیڈ لائنز بنا دیتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:بلوچستان کے بگڑتے حالات

عوام کے حقیقی مسائل وہیں کھڑے ہیں۔ انصاف نہیں مل رہا، تعلیم میسر نہیں، نوکریاں دستیاب نہیں۔ بڑے شہروں میں اچھا ٹرانسپورٹ سسٹم کہیں نہیں، جو لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم کر سکتا ہے۔ اگر کسی کو نوکری ملتی بھی ہے تو پہلے تنخواہ کم سے کم آفر ہو گی پھر وہ سوچے گا کہ دفتر یا کام کی جگہ اس کے گھر سے کتنی دور ہے۔ بہت سے لوگ آنے جانے کے خرچے کی وجہ سے نوکری کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔

عوام توقع کر رہے ہیں کہ عدالتی یا سیاسی لڑائیوں سے ہٹ کر کوئی ان کی بات بھی سنے۔ مگر بڑوں کی لڑائیاں ختم ہونے کا نام نہیں لے رہیں۔ ہر کوئی اپنے اپنے ’اصولوں‘ پر جم کر کھڑا ہے اور یہی سمجھتا ہے کہ وہ ٹھیک ہے۔ اعلیٰ عہدوں پر پہنچ کر آمرانہ سوچ پیدا ہونا کوئی نئی بات نہیں، مگر پاکستان میں یہ خاصا ہر جگہ موجود ہے۔ اگر کوئی جج ہے تو اس کے قریب سب لوگ جاہل ہیں اور وہ اس کی ہر بات میں ہاں میں ہاں ملائیں گے۔ اگر فوجی جنرل ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ اس سے آگے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا اور اس کے ماتحت لوگ یا رشتہ دار بھی اس کی جی حضوری کریں گے اور اس کی ہر بات کو سچ مانیں گے۔

یہ بھی پڑھیں:حماقتیں کب ختم ہوں گی؟

ایسے عہدوں پر بہت کم لوگ ہوں گے جو دوسروں کی باتیں سننا پسند کریں۔ سیاستدان ہوں یا سرکاری افسر، جج ہوں یا جنرل اعلیٰ ترین عہدے پر پہنچتے ہی وہ عقل کل بن جاتے ہیں۔ یہ پاکستان کا المیہ ہے کہ پاکستان آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے کی طرف جا رہا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp