مانیں یا نہ مانیں مگر ہمارا اور انڈیا کا ٹیکنالوجی میں کہیں کوئی مقابلہ نہیں بنتا۔ ان کے یہاں اس فیلڈ میں اس قدر کام ہورہا ہے کہ ساری دنیا کم ازکم سستی لیبر کے لئے تو ضرور انڈیا کی خدمات لینا پسند کرتی ہے کیونکہ یہاں انہیں کم اجرت پر محنتی اور کارآمد لوگ میسر آتے ہیں۔ جن میں بیکار نخرہ اور بیکار انا نہیں پائی جاتی جیسے ہمارے لوگوں میں نظر آتی ہے۔ کہنے دیجیئے کہ ہمارے یہاں حکمران ہوں یا عوام سبھی ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔ کوئی یہاں کام نہیں کرنا چاہتا مگر عیاشی ہر طبیعت میں عدم موجود ہے۔ ہمیں تو بس گپ شپ، ہلڑ بازی اور ہر دم سیاسی انتشار پر بے لاگ تجزیے دینے ہیں۔ چاہے گھر میں کھانے کو اناج ہو نہ ہو لیکن ہمیں تو سیاسی جلسوں اور سیاستدانوں کے نعرے لگانے میں زندگی کوتمام کرنا ہے۔
ابھی چند روز قبل بھارتی چینل “انڈیا ٹوڈے” پر ایک خبر نے چونکا دیا۔ ایک انڈین میڈیا گروپ نےمصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلیجنس ٹیکنالوجی) کا شاہکار ایک فی میل اینکر جسے’’ثنا‘‘ کہہ کر مخاطب کیا گیا کو متعارف کرایا۔ یہ بھی بتا دوں کہ یہ مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی چائنیز ہے یعنی بھارتی عوام و حکمران اپنی ترقی کی راہ میں ازلی دشمن سے بھی مدد لیتے ہچکچاتے نہیں، البتہ ہمیں اپنی انا کو قائم رکھنے کی خاطر سب کچھ قربان کردینے میں کوئی حرج محسوس نہیں ہوتا۔ یہی سبب ہے کہ دنیا آگے کو بڑھ رہی اور ہم نے پاکستان کی گاڑی ریورس گیئر میں ڈال رکھی ہے۔ یہاں یہ سمجھنا مشکل ہے کہ ارباب اختیار کے پیش نظر مقاصد ہیں کیا؟
ایک طرف “ثنا” متعارف ہورہی ہے جو نیوز کاسٹر کے طور پر ٹی وی سکرین پر مختلف زبانوں میں خبریں پڑھنے کے ساتھ ساتھ مختلف پروگرامز میں میزبانی بھی کرے گی اور آرٹیفیشل انٹیلجنس کے استعمال سے خود ہی سوالات بھی کرے گی اور تجزیہ بھی۔ یہ ایک حیران کن بات ہوگی مگر صرف ہمارے لئے۔ دنیا اس وقت ایسے کئی کارنامے انجام دے چکی جن کی الف ب بھی ہم پاکستانیوں کو معلوم نہیں کیونکہ ہم گزشتہ سات دہائیوں سے بحرانوں کی زد میں ہیں۔ کوئی مستحکم نظامِ ریاست کسی نے پیش کیا اور نہ ہی کوئی سنجیدہ نظر آتا ہے۔
آج بھی سارے ملک میں الیکشن کروانے اور نہ کروانے پر بحث جاری ہے۔ یہ بحث صرف ارباب اختیار نہیں کررہے بلکہ عوام وخواص بھی کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ حیرت انگیز طور پر یہ بحث بلکہ معمہ اس وقت اعلی عدلیہ کے درمیان بھی تنازع کھڑا کر چکا ہے۔ بنچ بنتے ہیں اور پھر ٹوٹ جاتے ہیں جیسے وہ کہتے ہیں کہ “لائی بے قدراں نال یاری تے ٹٹ گئی تڑک کرکے”
ایک جانب ملک کے وزیراعظم کا کہنا ہے کہ “پنجاب اور کے پی الیکشن اکتوبر سے قبل کرانا مشکل ہیں، الیکشن ہونے چاہئیں لیکن موجودہ صورتحال میں ممکن نہیں”۔ ان کا کہنا ہے کہ “ہم ملکی معیشت کو ٹھیک کرنے کیلئے کوشش کر رہے ہیں”۔ خدا جانے معیشت ٹھیک کررہے ہیں یا مزید خراب البتہ حالات بہت خراب ہوچکے ہیں۔ ملک میں مہنگائی بوتل سے نکلے جن کی طرح بے قابو ہوگئی ہے۔ غریب تو غریب تھا ہی جو متوسط طبقہ تھا اس کا بھی کچومر نکل گیا۔ کبھی ہم نے عمران خان کے دورِ حکومت میں پٹرول کی قیمت 125 روپے کیے جانے پر خوب واویلا مچایا تھا۔ مگر آج 278 روپے پٹرول اور آٹا 170 روپے بک رہا ہے تو بھی خاموشی سے جیے جارہے ہیں ۔
مہنگائی کے مقابل تنخواہیں اور آمدن میں کوئی اضافہ نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ارباب اختیار وہ طبقہ ہے جو عام آدمی کےمسائل سے نا واقف ہے اور نہ اس سے کوئی سروکار رکھتا ہے۔ ان کے یہاں تو پاکستان صرف پارٹ ٹائم جاب ہے۔ یہ لوگ نہ یہاں رہتے ہیں اور نہ یہاں رہنا چاہتے ہیں۔ بھلا رہنا بھی کیوں چاہیں گے جب انہیں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں رہنے کی سہولت میسر ہو تو اس ترقی پزیز بحرانوں میں پھنسے ملک میں کیونکر رہیں۔ جبکہ یہ بحرانی حالت ہے بھی انہیں کے سبب۔ ہم کسی ایک کو الزام دیں گے نہ کسی ایک کا نام لیں گے۔ ہم نے تو آنکھ کھولی تو یہی افراتفری دیکھی۔ کبھی جمہوریت کے نام پر استحصال دیکھا تو کبھی مارشل لاء کے دور کی سختیاں۔ جو بھی آیا خستہ حال تھا تو مالدار ہوکر نکلا مگر ملک وسائل سے مالامال ہوکر بھی بدحال ہوتا گیا۔
ایک ریاست میں رہنے والے باشندوں کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ ان کو مستقبل کی کوئی واضح سمت دی جائے جس کی طرف رُخ کرکے یہ چلتے رہیں۔ پاکستانی عوام کی بدقسمتی یہی ہے کہ انہیں آج تک درست سمت نہ ملی کہ جس کی طرف رخ کرکے چلتے رہیں تو کہیں نہ کہیں پہنچ ہی جائیں۔ یہاں ہر آنے والا اک نئی سمت کا تعین کرتا ہے اور ملک کی چلتی گاڑی پھر کسی دوسرے راستے پر ڈال دیتا ہے۔ اسی طرح دائیں بائیں آگے پیچھے چلتے چلتے ہم سمتوں کے بھنور میں جاپھنسے۔ حالت یہ ہوگئی کہ اب کوئی نہیں جانتا کہ جانا کدھر ہے؟ اور صرف میں اور آپ نہیں بلکہ وہ لوگ بھی اب بحران کی زد میں آگئے جنہیں اسٹیبلشمنٹ کہا جاتاہے۔ اس بار جوڑ توڑ کروانے والوں کے اپنے ہی جوڑ ہل کر رہ گئے۔
ملک کی موجودہ صورتحال کا اندازہ اس بات سے لگالیجئیے کہ آئین پاکستان کی گولڈن جوبلی کے موقع پر آئین خود عدم تحفظ کا شکار ہوگیا ہے۔ وہ سخت جان آئین جسے آمریت نگل نہ سکی آج ایک جمہوری حکومت اس کی شہہ رگ پہ چھری رکھے کھڑی ہے۔ اسمبلیاں ٹوٹنے کے بعد 90 دن کے اندراندر الیکشن کروانا ضروری ہے مگر۔۔۔ اگر مگر۔۔۔ یعنی وزیر اعظم کے مطابق اکتوبر سے پہلے الیکشن ممکن نہیں کیونکہ سیکیورٹی کا مسئلہ ہے اور معیشت کو خطرہ ہے۔ جبکہ شیخ رشید کا کہنا ہے کہ “مسئلہ پیسےاورسیکورٹی کانہیں نیت کاہے کیونکہ حکومت سےلوگوں کی نفرت اُس جگہ پر پہنچ گئی ہے کہ حکومت عوام میں جانےکےلیے تیار نہیں ہے”۔ فضل الرحمان کا خیال ہے کہ 90 دن میں الیکشن کروانے کے لئے سپریم کورٹ کی ہدایت دراصل پاکستان تحریک انصاف کو ریلیف دینا ہے اور اس ” عجلت” سے سیاسی اور آئینی بحران پیدا ہوسکتا ہے۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ 90 دن میں الیکشن نہ کروائے گئے تو ہم سڑکوں پہ نکل آئیں گے۔ جبکہ بابراعوان کہتے ہیں کہ 90 دن میں الیکشن نہ کروائے گئےتو سینٹ ٹوٹ جائے گی۔ یعنی بحران ہی بحران نظر آتا ہے لیکن ان سب بحرانوں کی نگاہ سے اوجھل ایک اور بحران بھی ہے جسے بروقت سنبھالا نہ گیا تو پھرکچھ بھی کہیں بھی سنبھالا نہ جائے گا اور یہ بحران آٹے کا بحران ہے، یہ مہنگائی کا بحران ہے، یہ بھوک اور ننگ اور افلاس کا بحران ہے جو مزید بڑھا تو کسی بپھرے طوفان کی طرح سب بہا لے جائے گا۔ اس کی راہ آئین روک سکےگا نہ عدلیہ نہ ریاست۔ اس لیے ارباب اختیار کو چاہئیے کہ وہ اپنے پیدا کردہ بحرانوں سے باہرنکل کر عوام کی جانب دیکھیں اور ان کے مسائل حل کرکے انہیں بحرانی حالت سے نجات دلائیں۔ یہی سب کے لئے بہتر ہے۔ یہی پاکستان کے لئےبہتر ہے۔