8 اکتوبر 2005 کے تباہ کن زلزلے میں جہاں ہزاروں خاندانوں نے اپنے پیاروں کو کھو دیا وہیں ایسے بھی خاندان ہیں جو کئی دن ملبے کے نیچے دبے رہنے کی بعد بھی معجزانہ طور پر بچ گئے اور وہ معمول زندگی بسر کررہے ہیں۔ ایسی ہی ایک کہانی 25 سالہ ابوبکر کی ہے جن کو اپنے گھر کے ملبے کے نیچے سے 100 گھنٹے بعد بہ حفاظت نکال لیا گیا تھا۔
ابو بکر راجہ مظفر آباد کے رہائشی ہیں انہوں نے ماس کمیونیکیشن میں گریجویشن کی ہے اور وہ اب اپنا کاروبار کر رہے ہیں۔ 8 اکتوبر 2005 کے زلزلے کے وقت ان کی عمر 6 سال تھی۔
یہ بھی پڑھیں: میری کہانی
ابو بکر نے وی نیوز کو بتایا کہ جب زلزلہ آیا تو وہ گھر کے صحن میں تھے اور جب ان کو یہ ؐمحسوس ہوا کہ زمین ہل رہی ہے تو وہ باہر رہنے کی بجائے گھر کے اندر بھاگے اور 3 منزلہ عمارت کے ملبے تلے دب گئے۔
وہ مکمل طور ہر ہوش و حواس میں رہے لیکن ان کو یہ یقین نہیں تھا کہ وہ ملبے کے نیچے سے نکل پائیں گے۔ زلزلے کے بعد آنے والے جھٹکوں سے وہ خوف زدہ تھے اور انہیں ایسا لگ رہا تھا کہ زمین سے لاوا نکلے گا اور ان کی ہڈیاں بھی نہیں رہیں گی۔ انہوں نے کہا کہ وہ ڈر کے مارے آیت الکرسی پڑھتے رہے اور باہر سے صرف رکشے اور ہیلی کاپٹر کی آوازیں آ رہی تھیں۔
ابو بکر کا کہنا تھا کہ چوتھے دن ان کو بھاری مشنری کی آواز سنائی دی جو ان کے اوپر پڑی کنکریٹ کی چھت کو توڑ رہی تھی اور اچانک مشین کی آواز بند ہو گئی۔ انہوں نے کہا کہ کچھ دیر بعد باہر موجود لوگوں نے ان کو آواز دی جس کا انہوں نے جواب دیا اور باہر موجود لوگوں نے ان کے اوپر سے ملبہ ہٹایا اور باہر نکال لیا۔
انہوں نے بتایا کہ ان کو ریسکیو کرنے والے پاک فوج کے جوان تھے جنہوں نے انہیں 3 منزلہ عمارت کے نیچے سے نکالا اور ان کی نانی کے حوالے کردیا۔
ابو بکر 6 ماہ کی عمر سے ہی اپنی نانی نرگس بی بی کے پاس رہتے تھے اور ان کی نانی نے ہی ان کو پالا تھا۔ ان کی نانی نے وی نیوز کو بتایا کہ وہ دن ان کے لیے کسی قیامت سے کم نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ وہ مدد کے لیے سب کو پکارتی رہیں پھر پاک فوج کے کچھ جوان وہاں آئے جنہوں نے اس ملبے کو ہٹایا اور ابو بکر کو باہر نکالا۔
مزید پڑھیے: زلزلے کے 19 برس بعد بھی بالاکوٹ بحالی سے میلوں پرے
جب ابوبکر کو ملبے سے نکالا گیا اس وقت ان کی والدہ شبنم صابر سی ایم ایچ راولپنڈی میں زیر علاج تھیں کیونکہ ان کو بھی اسی گھر کے ملبے کے نیچے سے ڈھائی گھنٹے بعد نکالا گیا تھا جس کی وجہ سے وہ شدید زخمی ہوگئی تھیں۔
وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دوسرے روز انہوں نے ہمت ہار دی تھی کیونکہ انہیں اپنے بیٹے ابو بکر کا کچھ پتا نہیں چل رہا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ابوبکر کو مردہ سمجھتے ہوئے دوسرے دن ان کے گھر ان کے لیے کفن بھی پہنچا دیا گیا تھا اور ان کے خاندان والوں کی یہ کوشش تھی کہ ان کو علاج کے لیے راولپنڈی بھیج کر وہاں سے ملبہ ہٹایا جائے۔
مزید پڑھیں: کیا زلزلے کے بعد مظفرآباد دنیا کا خطرناک ترین شہر بن گیا؟
ملبے تلے دبنے کی وجہ سے شبنم صابر کی ریڑھ کی ہڈی متاثر ہو گئی تھی اور تیسرے روز ان کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے راولپنڈی پہنچایا گیا۔ شبنم صابر نے وی نیوز کو بتایا کہ جب وہ راولپنڈی پہنچیں تو انہیں پتا لگا کہ ابو بکر کو ملبے کے نیچے سے نکال لیا گیا ہے اور وہ صحیح سلامت ہیں۔
ابو بکر نے وی نیوز کو بتایا کہ ان کی والدہ سے ان کی ملاقات 4 دن بعد راولپنڈی اسپتال میں ہوئی کیوں کہ ملبے سے نکالے جانے کے بعد وہ مظفرآباد میں زیر علاج رہے۔
اب ابو بکر شادی شدہ ہیں اور اپنے والدین ، اہلیہ اور بیٹی کے ساتھ خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں۔