فیصلہ ہونے والا ہے

بدھ 9 اکتوبر 2024
author image

عمار مسعود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

وزیر اعلیٰ کے پی کے، جناب علی امین گنڈا پور پُر اسرار رستوں، تنگ گھاٹیوں اور انجان پگڈنڈیوں سے گزرتے ہوئے اچانک کے پی کے کی اسمبلی میں طلوع ہوگئے۔ دھرنے کے اس انجام تک پہنچنے سے پہلے کارکنوں نے پولیس کے جوانوں پر شیلنگ کی،  کاروبار زندگی کئی شہروں میں معطل رہا، جگہ جگہ آگ لگائی گئی، صوبے کے سرکاری وسائل کا بے دریغ استعمال ہوا، ایک کانسٹیبل شہید ہوا، اور درجنوں زخمی ہوئے۔ دھرنے میں موجود سو سے زیادہ بپھرے ہوئے افغانی گرفتار ہوئے۔ تحریک انصاف کے کارکن اسلام آباد میں رسوا ہوتے رہے جبکہ ’انقلاب‘ کے پی کے ہاؤس سے نکل کر پشاور اسمبلی میں جا پہنچا۔ ایک ولولہ انگیز تقریر ہوئی، جس میں مذہبی ٹچ کا تڑکہ لگایا گیا۔ بات آئی گئی ہو گئی۔ اور سمجھا گیا کہ معاملہ بس ایک کانسٹیبل کی لاش پر نمٹ گیا۔

جو لوگ اس خوش گمانی میں ہیں کہ معاملہ نمٹ گیا، انہیں رتی بھر ادراک نہیں کہ معاملہ اب سنگین تر ہوتا جا رہا ہے۔ آخری جنگ کا آغاز ہو چکا ہے۔ ہائی برڈ نظام کی گہری جڑیں زمین سے نکالنے سے زخم زمین پر ہی آ رہے ہیں۔ عمران خان ثانی، علی امین گنڈا پور حکومت کے ہی نہیں بلکہ ترقی، تہذیب، تمیز کے دشمن بن کر ابھرے ہیں لیکن اب بات تحریک انصاف کے متشدد بیانیے سے ماورا ہے۔

تحریک انصاف کا جن ہی قابو میں نہیں آ رہا ہے۔ زہر کو بونے والوں کو تریاق دستیاب ہی نہیں ہو رہا۔ ہر طریقہ کر کے دیکھ لیا۔ کبھی سہولت کار عدالت میں بیٹھے نظر آتے ہیں کبھی جیل کا عملہ مدد پر اتر آتا ہے۔ کبھی صحافیوں/ اینکروں کے بھیس میں انتشار کا ترانہ پڑھنے والے سامنے آتے ہیں اور کبھی توڑ پھوڑ کرنے والے کارکن احتجاج پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ حالات کنٹرول میں نہیں آ رہے ہیں۔ بات بگڑتی جاتی ہے۔ پہلے جہاں سے دھواں اٹھتا دکھائی دیتا تھا اب وہاں آگ لگی نظر آتی ہے۔

فرض کریں تحریک انصاف آج اچانک انتشار سے توبہ کا اعلان کر دے۔ کارکنوں کو گالی گلوچ، لڑائی مار کٹائی جلاؤ گھیراؤ سے منع کر دے۔ ریاست مخالف بیانیے پر معافی مانگ لے۔ نو مئی پر شرمسار ہونے کا فیصلہ کر لے۔ اپنے رہنماؤں کو سماج میں نفرت پھیلانے سے منع کر دے۔ عمران خان عدالتی کارروائی کے بہانے پریس کانفرنس کرنے سے انکار کر دیں۔ بانی پی ٹی آئی منہ میں گھنگھنیاں ڈال لیں۔ اسرائیل سے بھی تحریک انصاف کے حق میں اٹھنے والی سب آوازیں خاموش ہو جائیں۔ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت افغانستان کو در اندازی کی دعوت دینا بند کر دے۔ بیرسٹر سیف کا بھارتی وزیر خارجہ وجے شنکر کو دھرنے میں بلانے والا بیان ہماری یادداشتوں سے مٹ جائے۔ بیرون ملک سے چلنے والا تحریک انصاف کا شرپسند سوشل میڈیا خاموش ہو جائے۔ برطانیہ کی  یہودی النسل گولڈ سمتھ فیملی پاکستان کے معاملات میں مداخلت  بند کردے۔ دھرنوں ، احتجاجوں اور لانگ مارچوں کے لیے ہونے والی فارن فنڈنگ کے سوتے خشک ہو جائیں۔ تحریک انصاف مکمل امن و آشتی کی علامت بن جائے تو کیا اس سے ملک کے حالات ٹھیک ہو جائیں گے؟ راوی چین ہی چین لکھ سکے گا؟

نہیں، صاحب نہیں! ابھی اس مملکت کے لیے مقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں۔ یہ بات یاد رکھیے گا کہ اگر تحریک انصاف قومی دھارے میں شامل ہو جائے گی تو پھر کوئی اور مشکل سامنے آئے گی۔

گیارہ اکتوبر کو خیبر پختونخوا میں ہونے والا پشتون جرگہ اسی مہلک سلسلے کی کڑی ہے۔ حقوق کے لیے جو چاہے آواز اٹھائے یہ ریاست کے شہریوں کا حق ہے مگر علیحدگی کی آوازوں کی بازگشت کسی بھی ریاست کے لیے ناقابل قبول ہوتی ہے۔ ایک ایسا جرگہ ایک ایسی جماعت کی جانب سے جس پر ریاست پاکستان نے پابندی لگا دی ہو، وہ کیا گل کھلا سکتا ہے پاکستان سے مخلص لوگوں کو اس کا بہت اچھی طرح اندازہ ہے۔ جب تک پی ٹی ایم اپنے حقوق پر بات کرتی رہی ریاست کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ جائز مطالبات پر آواز اٹھانے میں  کوئی حرج نہیں مگر علیحدگی کی باتیں جائز نہیں۔ یہیں سے اختلاف شروع ہوتا ہے جو ٹکراؤ پر منتج ہوتا ہے۔ لیکن شاید اس دفعہ ٹکراؤ ہی مقصود ہے۔ وہی پریس کانفرنس جو فیصل واوڈا نے پی ٹی آئی کے مقاصد کے حوالے سے کی شاید وہی مقاصد اس دفعہ اس جرگے کے بھی ہیں۔

ریاست اگر پی ٹی آئی اور پی ٹی ایم سے نمٹ بھی لے تو بلوچستان میں ایک فتنہ جنم لے چکا ہے۔ وہاں سے بھی وہ آوازیں اٹھ رہی ہیں جو کوئی ریاست نہیں سننا چاہتی۔ بی ایل اے کے چاکر اب ریاست سے ٹکر لینا چاہتے ہیں۔ ہر روز کہیں دھماکے کی خبر آ جاتی ہے۔ غیر بلوچوں کے قتل کی رسم جاری ہے۔ انسانی جانوں کے ضیاع کی ارزانی نے ہمیں بے حس کر دیا ہے۔ بلاشبہ بلوچ نوجوان ایک بہتر مستقبل کے حق دار ہے تاہم حالات ایسے ہوچکے ہیں کہ ریاست اگر انہیں ان کا حق دینا بھی چاہے تو رستے میں قابل نفرین بیانیے حائل ہو جاتے ہیں۔

انہی حالات میں پاکستان میں شنگھائی کواپریشن آرگنائزیشن (ایس سی او) کی کانفرنس بھی منعقد ہو رہی ہے۔ تاریکی میں سے روشنی کا پیغام آ رہا ہے۔ دنیا پاکستان کو عزت دنیا چاہتی ہے مگر پاکستان میں موجود چند گروہ اس عزت کو خاک میں ملانا چاہتے ہیں۔ معیشت میں ذرا سی بہتری ہوئی ہے۔ سٹاک مارکیٹ کو مدتوں بعد ہوش آیا ہے۔ بجلی کے نرخ کم ہو رہے ہیں۔ پیٹرول کی قیمت بھی بتدریج تنزلی کا شکار ہے۔ کاروباری طبقہ پھر سرگرم عمل ہو رہا ہے۔ آئی ایم ایف نے شرائط نرم کی ہیں۔ سات بلین ڈالر کا قرضہ منظور ہو رہا ہے۔ ترقی کے یہ اعشاریے پاکستان دشمنوں کے سینے پر انگاروں کی طرح لوٹ رہے ہیں۔ اس لیے وہ اس موقع کو برباد کرنے کی پوری کوشش کریں گے۔

رہا قصہ آئینی ترامیم کا تو وہ تو ہو کر رہیں گی۔ پی ٹی آئی کے سوا تمام سیاسی جماعتیں اس پر متفق ہیں۔ فیصلہ صرف یہ کرنا ہے کہ آئینی عدالت کی سربراہی کا ہما کس کے سر پر بیٹھے گا؟ فیصلہ بس ہونے والا ہے کہ آئینی عدالت کی مسند انصاف پر منصور براجمان ہو گا یا قاضی وقت کی حکمرانی ہو گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp