مجوزہ آئینی ترمیم کیخلاف بلوچستان بار کونسل نے بھی سپریم کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ بنیادی حقوق اور عدلیہ کی آزادی آئین کے بنیادی خدوخال ہیں، جس کیخلاف کوئی ترمیم نہیں کی جاسکتی۔
بلوچستان بار کونسل کی جانب سے دائر درخواست میں صدر مملکت اور وزیر اعظم سمیت اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کے ساتھ ساتھ وفاقی سیکریٹری قانون اور تمام صوبائی چیف سیکریٹریز کو بھی فریق بنایا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:مجوزہ آئینی ترمیم کا ساتھ دینے والوں پر آرٹیکل 6 لگنا چاہیے، وکلا کنونشن میں جوڈیشل پیکج کے خلاف قرارداد منظور
بلوچستان بار کونسل کی جانب سے درخواست میں کہا گیا ہے کہ آئین کے بنیادی خدوخال کیخلاف کوئی ترمیم نہیں کی جا سکتی، عدالت قرار دے کہ مجوزہ ترمیم آئین توڑنے کے مترادف ہے، مجوزہ آئینی ترمیم کا بل غیرآئینی اور غیرقانونی قرار دیا جائے۔
درخواست میں عدالت عظمیٰ سے استدعا کی گئی ہے کہ وفاقی حکومت اور ارکان پارلیمان کو بل پیش کرنے سے روکنے کا حکم دیا جائے، قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ہاؤس مکمل ہونے تک ترمیمی بل پیش کرنے سے روکا جائے، مجوزہ آئینی ترمیمی بل اگر پیش کیا جائے تو اسے معطل کرنے کا حکم دیا جائے۔
مزید پڑھیں:عدلیہ کی آزادی کے بعد صرف وردی والے آئینی ترمیم کرسکتے ہیں، بلاول بھٹو
درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ مجوزہ آئینی ترمیمی بل پاکستان کو پارلیمانی جمہوریت سے اسٹیبلشمنٹ کے زیر کنٹرول ریاست میں بدل دے گا، مجوزہ آئینی ترمیمی بل ملک کو ماورائے آئین قوتوں کے زیر اقتدار ریاست میں بدل دے گا لہذا عدالت مجوزہ آئینی ترمیمی بل کو غیر آئینی قرار دے۔