کچھ لوگوں سےآپ کا برس ہا برس سے تعلق ہوتا ہے مگر ان سے آپ کی وہ قربت نہیں بن پاتی جو قریبی لوگوں میں ہوتی ہے۔ دوسری طرف کچھ لوگ نئے نئے آپ کی زندگی میں داخل ہوتے ہیں مگر ان سے ایسی قرابت داری جنم لیتی ہے جیسے زمانوں کی سانجھ ہو۔ پروفیسر اریندر سنگھ بھی ایسی ہی شخصیت ہیں۔ ہماری آپس میں ایک بھی ملاقات نہیں، کبھی ویڈیو کال بھی نہیں کی، مطلب ایک دوسرے کے چہرے مہرے، قد کاٹھ، انداز و اطوار کا بھی علم نہیں۔ یہ بھی نہیں کہ ہم روز بات کرتے ہوں یا پیغامات کا باہمی تبادلہ ہوتا ہو۔
نامور کلاسیکل گائیک استا د حسین بخش گُلو مرحوم سے میری بہت نیاز مندی تھی۔ تین چار برس قبل لاہور گیا اور خاں صاحب کے گھر جا کر ان کا انٹرویو ریکارڈ کیا۔ خاں صاحب کا یہ انٹرویو یو ٹیوب پر اپ لوڈ کیا تو اسے وسیع پیمانے پر پزیرائی ملی۔
مشرقی پنجاب، جالندھر سے ڈاکٹر مہندر سندھو سے بھی اسی انٹرویو کے توسط سے رابطہ ہوا اور دوستی استوار ہوئی۔ ڈاکٹر سندھو استاد حسین بخش گلو کے بہت بڑے مداح ہیں اور انھیں گائیکی میں اپنا استاد مانتے ہیں۔ کئی برس قبل جب حسین بخش صاحب بھارت گئے تھے تو ڈاکٹر سندھو کی ملاقاتیں بھی رہیں اور وہ ان کے گانے سے بھی حظ اٹھاتے رہے۔ پچھلے برس دسمبر میں جب گُلو صاحب کی وفات ہوئی تو ڈاکٹر سندھو باقاعدہ روتے رہے۔ ڈاکٹر صاحب نے ایک دن پروفیسر اریندر جی کا تعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ پروفیسر صاحب انگلش کے استاد ہیں مگر وہ اردو لکھنا پڑھنا بھی جانتے ہیں۔ وہ خود بھی پروفیسر صاحب سے اردو سیکھ رہے ہیں۔
پروفیسر اریندر بہت دھیمے مزاج کے گُنی انسان ہیں۔ وہ غزل گائیک استاد غلام علی کے عاشق ہیں۔ کہتے ہیں فن کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ یہ بات برِصغیر پاک و ہند کے فن کاروں نے اپنے فن سے ثابت کی ہے۔ سرحد کے دونوں طرف بغیر کسی تفریق کے لوگ فن کاروں سے پیار کرتے ہیں اور ان کے فن کو سراہتے ہیں۔
محمد رفیع، کشور کمار، لتا منگیشکر، آشا بھونسلے، کمار سانو، اُدت نارائن، الکا یاگنک، سونو نگم، اے آر رحمٰن، ہری ہرن، جگجیت سنگھ، سُکھویندر سنگھ، شریا گھوشال، سنھیدی چوہان سمیت ان گنت نئے پرانے ایسے گانے والے ہیں جنھیں آج بھی پاکستان میں لوگ بہت سُنتے ہیں۔
بھارت میں بھی صورتِ حال مُختلف نہیں۔ نور جہان، استاد سلامت علی خاں، مہدی حسن، غلام علی، فریدہ خانم، طفیل نیازی، ریشماں، پرویز مہدی، شوکت علی، حسین بخش گلو، نصرت فتح علی خاں سے لے کر آج کے گانے والے عاطف اسلم، شفقت سلامت، شفقت امانت، راحت فتح علی خاں اور شازیہ منظور جیسے بے شمار فن کار ہیں جن کو انڈیا میں بہت زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔
اسی طرح دوسرے شعبہ جات کے فن کاروں کو بھی سرحد کے دونوں طرف بلا تفریق لوگ پسند کرتے ہیں۔
مہدی حسن، اور غلام علی کو جس طرح بھارت میں پزیرائی اور پسندیدگی ملی ہے وہ کم فن کاروں کے حصے میں آئی ہے۔ ان دونوں فن کاروں کو ماورائی فن کار کا درجہ حاصل ہے۔ آج بھی غزل کے شوقین گلوکاروں میں سرحد کی دونوں طرف مہدی حسن اور غلام علی کے انداز میں گانے کو کامیابی خیال کیا جاتا ہے۔
مہدی حسن اگر شہنشاہِ غزل ہیں تو غلام علی بادشاہِ غزل ہیں۔ پاکستان مین بھی ان کے چاہنے والے بہت ہیں مگر دونوں کو بھارت میں دیوتا سمان مرتبہ حاصل ہے۔ وہاں مہدی حسن اور غلام علی فین کلب بنے ہوئے ہیں۔
ایک زمانے تک غزل ٹھمری انگ میں گائی جاتی تھی۔ اس انگ میں راگ داری بولوں پر حاوی ہوتی تھی۔ گوہر جان، کے ایل سہگل، اختری بائی فیض آبادی(بیگم اختر)، استاد برکت علی خان جیسے گُنی فن کاروں نے اس انگ میں خوب گایا۔ ریڈیو پاکستان لاہور نے گیت انگ میں استاد امانت علی خاں کی سریلی آواز میں کئی غزلیں ریکارڈ کیں جو ہر خاص و عام نے پسند کیں۔ ساٹھ کی دہائی کے اواخر میں ریڈیو پاکستان لاہور نے مہدی حسن کی آواز میں جب فیض احمد فیض کی غزل ‘گُلوں میں رنگ بھرے، بادِ نو بہار چلے’ نشر کی تو چہار دانگ عالم دھوم مچ گئی۔
اس غزل کی جس انداز میں درو بست کی گئی اس میں عہد ساز براڈ کاسٹر سلیم گیلانی کا مرکزی عمل دخل تھا۔ یاد رہے کہ گلو کارہ ریشماں کو بھی متعارف کروانے کا سہرا سلیم گیلانی صاحب کے سر ہے۔
مہدی حسن صاحب کی گائی ہوئی یہ غزل ، غزل گائیکی میں سنگِ میل حثیت اختیار کر گئی۔ در اصل اس غزل سے پہلے اور بعد غزل گائیکی کا ایک دور متعین ہو گیا جس میں راگ داری کے ساتھ الفاظ کو مفہوم کے ساتھ واضح کرنے کا چلن شروع ہوا۔
مہدی حسن خاں صاحب کی گائی ہوئی غزلوں کا جائزہ لیا جائے تو ان غزلوں کی ایک طویل فہرست بنے گی جنھوں نے خواص و عام میں مقبولیت حاصل کی۔
مہدی حسن کے بعد غزل گائیکی میں جو دوسرا بڑا نام سامنے آتا ہے وہ غلام علی کا ہے۔
استاد غلام علی خاں صاحب ، استاد برکت علی خاں سے فیض یاب ہیں۔ انھوں نے ایک طویل عرصہ ہارمونیم سنگتی کے طور بجایا۔ استاد غلام حیدر خاں لکھتے ہیں کہ غزل گائیک معروف ہونے سے پہلے وہ ایک گُنی اور ماہر ہارمونیم نواز کی شہرت رکھتے تھے۔ غلام علی ایک گُنی طبلہ نواز بھی ہیں۔ مطلب سُر اور لے پر جو انھیں ملکہ حاصل ہے اس کے پیچھے ایک طویل ریاضت ہے۔
اپنی کتاب ‘غزل گائیکی’ میں انجم شیرازی لکھتے ہیں، “غلام علی نے اپنے فنی سفر کا باقاعدہ آغاز 1960ء کی دہائی میں ریڈیو پاکستان لاہور سے کیا اور اپنی گائیکی کی ابتداء احمد ندیم قاسمی کی غزل ‘شام کو صبحِ چمن یاد آئی’ گا کر کی۔ راگ شو رنجنی میں مرتب اس دھن کے منظرِ عام پر آتے ہی غزل گائیکی میں تاثراتی اور لے کاری انداز کے نئے مکتب کا آغاز ہوا۔ غلام علی کا نام صحیح معنوں میں 1970ء کے عشرے کے آغاز میں منظرِعام پر آیا جب انھوں نے غالب کی غزل پنجابی میں گائی۔ اس فارسی غزل کا ترجمہ نامور شاعر صوفی تبسم نے کیا تھا،
‘میرے شوق دا نئیں اعتبار تینوں آجا ویکھ میرا انتظار آجا’
غلام علی خاں صاحب کی گائی ہوئی اس غزل نے شہرت اور پسندیدگی کی نئی بلندیوں کو چھوا۔”
غلام علی کی غزل گائیکی کا اپنا منفرد انداز ہے۔ انھوں نے اپنی علیحدہ شناخت تب بنائی جب ہر طرف مہدی حسن کے نام کا ڈنکا بجتا تھا۔ غلام علی کی گائیکی میں ادائیگی، شوخی اور آواز کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ ساتھ جو ایک چھیڑ چھاڑ ہے وہ انھی کا خاصہ ہے۔
جدید غزل گائیکی میں مہدی حسن سے لے کر سنیدھی چوہان تک ایک سے بڑھ کر ایک نام ہے۔ آپ آشا بھونسلے کی آواز میں بار بار غزلیں سُنیں تو آپ کا دل نہیں بھرتا، مگر سچی بات یہ ہے کہ جدید غزل گائیکی کی عمارت چار ستونوں، مہدی حسن، غلام علی، فریدہ خانم اور اقبال بانو کے ناموں پر کھڑی ہے۔
یہ وہ گانے والے ہیں جنھوں نے جدید غزل گائیکی کو منفرد انداز اور اسلوب دیا۔ ان کی گائی ہوئی غزل سُنیں تو غزل نکھر کر، مجسّم آپ کے سامنے آکر کھڑی ہو جاتی ہے۔
اُستاد غلام علی خاں صاحب بلاشبہ اپنی بے مثل غزل گائیکی کی بنیاد پر بادشاہِ غزل کہلانے کے مستحق ہیں۔
میں اپنے دوست پروفیسر اریندر سنگھ کو استاد غلام علی خاں صاحب پر کتاب مرتب کرنے پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ انھوں نے یہ کام کر کے غلام علی کے سچے عاشق ہونے کا حق ادا کر دیا ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔