شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس اور انڈیا کو درپیش چیلنجز

جمعرات 10 اکتوبر 2024
author image

وسی بابا

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کے ہیڈ آف گورنمنٹ کا اجلاس ہو رہا ہے ۔ یہ اجلاس 15 اور 16 اکتوبر کو ہونا طے ہے۔ پاکستان میں اس وقت کئی قسم کے احتجاج جاری ہیں۔ مسلح گروپ دہشت گردی کی کارروائیاں بھی کر رہے ہیں۔ کراچی چینی مہمان ایک حملے کا نشانہ بنے ہیں۔ یہ وہ چینی عہدیدار تھے جو پاکستان میں جاری انرجی بحران میں فیور دینے کے لیے چینی پاور پراجیکٹ کی طرف سے رعایت دینے کے لیے مذاکرات کر رہے تھے۔

پاکستان میں جاری سیاسی عدم استحکام اور احتجاج کے باوجود شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس وقت پر ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ چین اور روس کے وزرائے اعظم، ایرانی نائب صدر، سینٹرل ایشیا سے ممبر ملکوں کے راہنما پاکستان آ رہے ہیں۔ انڈین وزیر خارجہ جے شنکر کا بھی اجلاس میں شرکت کے لیے اسلام آباد آنا اب طے ہے ۔ انڈین وزیر خارجہ نے کہا کہ یہ ملٹی لیٹرل اجلاس ہے۔ اس میں دو طرفہ مذاکرات نہیں ہوں گے۔ اس کے باوجود جے شنکر کی آمد ایک بڑی خبر ہے۔

یہ بھی پڑھیں:ایران و اسرائیل خوف کا شکار اور مڈل ایسٹ بارود کا ڈھیر بنتا جا رہا ہے

انڈیا کو اس وقت ایک دلچسپ صورتحال کا سامنا ہے۔ انڈیا کے ہمسائے میں انڈیا مخالف حکومتیں ہیں۔ بنگلہ دیش میں پرو انڈیا حسینہ واجد کی حکومت جا چکی ہے۔ میانمار، مالدیپ، نیپال ہر جگہ انڈیا مخالف حکومتیں ہیں۔ انورا کمارا ڈسانائیکے سری لنکا کے نئے صدر منتخب ہوئے ہیں۔ یہ ایک وقت میں سنہالی قوم پرست بھی رہے ہیں۔ الیکشن مہم میں بھی انڈین ماہی گیر ٹرالرز کے سری لنکا کے پانیوں سے نکل جانے کی بات کرتے رہے ہیں۔

ڈسانائیکے کا جیتنا انڈیا کے لیے امکانات اور مشکلات دونوں لایا ہے۔ انڈیا کے لیے سری لنکا مشکل گراؤنڈ رہا ہے۔ جہاں کی تامل آبادی اپنی آزادی کے لیے لڑتی رہی ہے۔ تامل مخالفت ایک انڈین وزیر اعظم راجیو گاندھی کی جان بھی لے چکی ہے۔انڈیا کے افغانستان کے ساتھ بھی کوئی مثالی تعلقات نہیں ہیں۔ سارک تنظیم بھی انڈیا کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے معطل اور سرد خانے میں پڑی ہے۔

چین کی ڈپلومیسی میں پیشرفت انڈیا کی مشکلات بڑھا رہی ہے۔ نیپال، میانمار، افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش ہر جگہ چین نے اپنے قدم جما رکھے ہیں۔ سری لنکا کو ایک معاشی بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کی وجہ چینی قرضوں اور کووڈ کو قرار دیا جاتا ہے۔ سری لنکا اب انڈیا اور چین دونوں کے لیے ہی برابر کے امکانات اور چیلنج رکھتا ہے۔

چینی ڈپلومیسی میں اسٹریٹجک پارٹنر شپ، آل ویدر، کمیونٹی ود شیئرڈ فیوچر قسم کی باتوں پر فوکس ہوتا ہے۔ انفراسٹکچر پراجیکٹ پر زور رہتا ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو چین کو ایک طرح سے برتری فراہم کرتا ہے۔ افریقہ اور مڈل ایسٹ میں چین نے اپنے قدم مضبوطی سے جمائے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:امریکا چین ٹریڈ وار میں پاکستان کے لیے خیر کی خبر

انڈیا نے ریجن سے باہر اہم اتحاد بنائے ہیں۔ آئی ٹو یو ٹو الائنس جس میں انڈیا اسرائیل، یو اے ای اور امریکا شامل ہیں۔ کواڈ اتحاد جس میں جاپان انڈیا آسٹریلیا اور امریکا شامل ہیں۔ انڈیا ان نئے اتحادوں کی طرف زیادہ متوجہ ہوا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم اور برکس اتحاد 2 ایسے فورم ہیں جہاں روس اور چین مؤثر ترین ملک ہیں۔

انڈیا کے روس کے ساتھ دفاعی اور اسٹریٹجک تعلقات بہت گہرے اور پرانے ہیں۔ یوکرین جنگ کے بعد انڈیا نے روس سے سستی انرجی حاصل کی ہے اور بہت کمایا بھی ہے۔ انڈیا روس کا تجارتی حجم ریکارڈ 65 ارب ڈالر تک پہنچا ہے۔ اس میں 60 ارب ڈالر انرجی کا ہے جو انڈیا روس سے خریدتا ہے۔

انڈیا چین سے مسابقت کرتا اب ریجنل اتحادوں کی طرف بھی متوجہ ہو رہا ہے۔ وہ ان سے حاصل فوائد کو چھوڑنا نہیں چاہتا۔ روسی صدر یوکرین جنگ کے بعد ایشیا کی جانب متوجہ ہوئے ہیں۔ یورپ جو کبھی روسی انرجی کا بڑا گاہک تھا۔ وہ روس پر پابندیاں لگا چکا ہے۔ روس نئی مارکیٹوں اور ریجنل تنازعات ختم کرنے کے لیے سرگرم ہے۔

پاکستان کو 2023 میں روسی صدر نے اپنے اسٹیٹ آف یونین خطاب میں نارتھ ساؤتھ کاریڈور میں شمولیت کی دعوت دی تھی۔ پاکستان نے سال بعد اس دعوت کو ایک شرط کے ساتھ قبول کرنے اعلان کیا۔ شرط یہ تھی کہ پاکستان کو برکس اتحاد میں بھی شامل کیا جائے۔ برکس اتحاد روس چین برازیل ساؤتھ افریقہ اور انڈیا نے مل کر بنایا تھا۔ یہ اتحاد بھی اب توسیع پا چکا ہے، اس میں نئے ممبر ملک شامل ہو چکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:برکس میں پاکستان کی شمولیت اور برکس کی اپنی کرنسی آنے کی خبریں

انڈیا جس کے ہمسائے میں اس کی مخالف حکومتیں ہیں۔ انڈیا چین کے ساتھ اپنی محاذ آرائی برقرار رکھتے ہوئے پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کے مکس سے سگنل دے رہا ہے۔ سفارتی معاملات میں پیشرفت سست رفتار ہوتی ہے۔ سرپرائز کم ہی ملتے ہیں۔ ایس سی او کانفرنس ایک اور طرح کا سگنل دے رہی ہے۔ وہ یہ کہ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام، احتجاج کو اب دنیا نیو نارمل کے طور پر لے رہی ہے۔ جو اچھی بات ہے ۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp