جرمنی کے ہاتھوں ڈنمارک اور ناروے کی فتح: دوسری جنگِ عظیم کی اہم پیش قدمی

اتوار 9 اپریل 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

’سردی بہت بڑھ گئی ہے۔جرمنی صورتحال دیکھ رہا ہے۔ سردی بہت بڑھ گئی ہے۔ جرمنی کی نظر ڈرامے پر ہے۔ سردی بہت بڑھ گئی ہے۔ جرمنی نے صورتحال کے مقابلے کے لیے اپنا فیصلہ محفوظ رکھا ہے‘۔

برلن کی یہ ذومعنی خطرناک دھمکی اس وقت منظر عام پہ آئی جب 8 اپریل 1940ء کو برطانیہ نے ناروے کو مطلع کیا کہ وہ جہاز جن پر جنگی ساز وسامان ہو گا، وہ ناروے کے پانیوں میں سے نہیں گزر سکیں گے۔ جرمن لیڈر ایڈولف ہٹلر نے ان حالا ت کا اندازہ پہلے سے لگا لیا تھا۔ وہ خوب جانتا تھا کہ اگر اسے بڑی مغربی طاقتوں کے خلاف جنگ کرنی ہے تو رسد کے کئی مراکز درکار ہوں گے۔ رسد میں سب سے اہم لوہا تھا اور اعلیٰ درجے کا خام لوہا سویڈن کے مغرب سے ہوتے ہوئے ناروے کی بندرگاہ نارویک پہنچایا جاتا تھا جہاں سے جرمن جہازوں کے ذریعہ یہ ’سکاگیرک‘ لایا جاتا تھا۔

اس سے قبل جرمن فوجیں برق رفتاری سے پولینڈ فتح کر چکی تھیں۔ 28 ستمبر 1939ء کو وارسا جرمنی کے آگے ہتھیار ڈال چکا تھا۔ اس فتح سے جرمنی کی فوج اور عوام کا جذبہ بہت بڑھ گیا اور وہ مزید پیش قدمی کے لیے پر تولنے لگے تھے۔ لندن اور پیرس میں شدید تشویش کی حالت پیدا ہو گئی تھی۔ ہٹلر کو روکنے کے لیے ضروری تھا کہ سامانِ رسد کی سپلائی لائن میں رکاوٹ ڈالی جائے۔ سکینڈے نیویائی ممالک سپلائی لائن کی بحالی میں اہم کردار ادا کر رہے تھے۔ ’سکینڈے نیویا‘ شمالی یورپی ممالک سویڈن، ڈنمارک اور ناروے کے مجموعے کو کہا جاتا ہے۔ ناروے چوں کہ غیر جانب دار ملک تھا، اس لیے اصولی طور پہ اس کے پانیوں میں سے متحارب ممالک کے جہازوں کی آمد و رفت پر کوئی پابندی نہیں تھی  بلکہ جرمن مال بردار جہازوں کو ناروے کا بیڑا اپنی حفاظت میں لے کر چلتا تھا۔

برطانوی جہازوں نے ناروے کے ساحل پر موجود جرمن مال بردار جہازوں پر انتباہی گولہ باری کی۔

برطانیہ اس تمام صورتحال کو بہت تشویش کی نگاہ سے دیکھ رہا تھا۔ ہٹلر کو بھی اندازہ تھا کہ برطانیہ ناکہ بندی کر کے سویڈن سے لوہے کی رسد ختم کر سکتا ہے، تا کہ لوہے سے بھرے جہاز ناروے کے پانیوں میں سے ڈنمارک ہوتے ہوئے جرمنی نہ پہنچ سکیں۔ اس ممکنہ مسئلے سے نمٹنے کے لیے ہٹلر نے پیشگی تیاری کر لی تھی اور 1939ء ہی میں ڈنمارک اور ناروے پر حملے کے نقشے تیار کرنے کا حکم دے دیا تھا۔

برطانیہ نے جیسے ہی ناروے کے پانیوں میں حرکت کی، ہٹلر نے انتہائی برق رفتاری سے اپنی جنگی حکمت عملی مرتب کر لی۔ برطانوی ولیم شائیرر جو ان دنوں برلن میں مقیم تھا، نے ایک نشری تقریر میں کہا کہ ’یہاں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جنگ سکینڈے نیویا تک پھیل سکتی ہے۔ برلن میں آج ہی یہ اطلاع ملی ہے کہ نو برطانوی جہازوں کا ایک تباہ کن بیڑا ناروے کے ساحل کے پاس ٹھہرا ہوا ہے جس نے لوہے سے لدے جرمن مال بردار جہازوں پر انتباہی گولہ باری کی ہے۔ ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ غیر جانبدار سکینڈے نیویا ئی ممالک بھی جنگ میں کھینچ لیے جائیں گے‘۔

جرمنی نے 9 اپریل 1940ء کی صبح پانچ بجے ڈنمارک حکومت کو پیغام بھیجا کہ ’ہمیں پختہ شہادت مل چکی ہے کہ اتحادی طاقتیں سکینڈے نیویا کو میدان جنگ بنانا چاہتی ہیں اور چونکہ یہ ممالک اپنی حفاظت نہیں کر سکتے، اس لیے ہٹلر نے ان کی حفاظت کا فیصلہ کیا ہے‘۔

اس اثنا ء میں جرمنی ڈنمارک کو باقی دنیا سےمنقطع کر چکا تھا۔ ڈنمارک کے جواب کا بھی انتظار نہیں کیا گیا اور جرمن فوجیں غیر مسلح سرحدوں کو پار کرتی ڈنمارک میں داخل ہو گئیں۔ ڈنمارک اور جرمنی کے مابین ایک دوسرے پے حملہ نہ کرنے کا معاہدہ بھی ہٹلر نے ایک طرف رکھ دیا۔ جرمن فوجیں بغیر کسی مزاحمت کے آگے بڑھتی گئیں حتیٰ کہ چند گھنٹوں ہی میں کوپن ہیگن تک پہنچ گئیں۔ شاہ ڈنمارک نےاپنی رعایا کے نام پیغام جاری کیا ’اس واقعے کو قبول کر لو اور نظم و ضبط قائم رکھو‘۔

جرمن ہوائی فوج کی سرعت کی وجہ سے ناروے کو گھٹنے ٹیکنے پڑے۔

اسی صبح پانچ بجے اوسلو میں مقیم جرمن سفیر نے ایک یاداشت ناروے کے وزیر خارجہ کے حوالے کی جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ ’ناروے کا نظم و نسق فوری طور پے جرمنی کے حوالے کر دیا جائے کیونکہ اتحادی اس پر قبضے کی تیاری کر چکے ہیں‘۔ناروے کے وزیر خارجہ نے انتہائی غصے میں یہ مطالبہ ٹھکرا دیا۔

اس انکار کے چند گھنٹے کے اندر ہی جرمن فوجوں نے ناروے پر حملہ کر دیا۔ دارالحکومت  اوسلو کے سب سے بڑے ہوائی اڈے پر بم برسائے گئے۔ بھاری جنگی ساز و سامان اور فوجیں اوسلو سے مشرقی جانب نارویک تک پھیل گئیں۔ جرمنوں نے جنوبی علاقے میں قبضہ مستحکم کرنے کے ساتھ شمال میں نارویک اور ٹرونڈہائم کی بندرگاہوں پر بھی قبضہ کر لیا۔ ناروے اس اچانک حملے کے لیے بالکل تیار نہیں تھا۔ اس کے باوجود اوسلو اور نارویک کے اردگرد سخت مقابلہ ہوا لیکن جرمن ہوائی فوج کی سرعت کی وجہ سے ناروے کو گھٹنے ٹیکنے پڑے۔ چند ہی گھنٹوں میں تمام بندرگاہوں اور ہوائی اڈوں سمیت کئی اہم مراکز جرمن فوج کے قبضے میں تھے۔ جرمن فوجیں موس کی بندرگاہ سے پینتیس میل کا فاصلہ طے کر کے چار بجے تک اوسلو کے بازاروں تک پہنچ چکی تھیں اور سرکاری عمارتیں بھی قبضے میں لے لی گئی تھیں۔ بادشاہ ہاکون ہفتم کا تعاقب کیا گیا لیکن وہ انگلستان بھاگ گیا جہاں اس نے جلا وطن حکومت قائم کر لی۔

9 اپریل 1940ء کو بعد دوپہر جرمن سرکاری ایجنسی نے اعلان کیا کہ ’سابقہ حکومت نے اپنے اختیارات میجر کوئزلنگ کے حوالے کر دیے ہیں‘۔

کوئزلنگ نے شام ساڑھے آٹھ بجے ریڈیو سے ایک اعلان نشر کیا جس میں لوگوں کو کہا گیا کہ ’مزاحمت روک دو، املاک کی مجرمانہ بربادی سے گریز کرو‘۔

ساتھ ہی فوج کو ہدایت دی گئی کہ وہ قومی حکومت کو تسلیم کر لے۔ کوئزلنگ کے جرمن فوجوں کے ساتھ تعاون نے اسے ناروے کا غدار بنا دیا اور بعد ازاں اس کا نام غداری کا مترادف سمجھا جانے لگا۔کوئزلنگ کے اقدامات کی بدولت ناروے جلد ہی جرمنوں کے ہاتھوں میں چلا گیا۔ باوجود اس کے کہ برطانوی فوجوں نے مداخلت کرتے ہوئے، نارویک، نیمسوس اور اینڈلسنیس میں پیش قدمی کی، لیکن جون 1940ء کے پہلے ہفتے تک انہیں پیچھے ہٹنے پے مجبور کر دیا گیا۔

8 جون 1940ء کو شکست خوردہ برطانوی فوج ناروے سے ہٹا لی گئی۔ اس فوج کو واپس لے جانے والے جہازوں پر جرمنوں نے حملہ کر دیا اور طیارہ بردار برطانوی جہاز’گلوریش‘ سمیت دیگر دو تباہ کن جہاز ڈبو دیے گئے۔ دوسرے متعدد جہازوں کو بھی نقصان پہنچا۔ 10 جون 1940ء کو ناروے نے جرمن فوجوں کے آگے شکست تسلیم کرتے ہوئے ہتھیار ڈال دیے۔

یہ لرزہ خیز خبریں لندن پہنچیں تو چرچل چیخ اٹھا ’تقدیر بری طرح ہمارے خلاف ہے‘۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp