حافظ نعیم کا اعزاز

اتوار 13 اکتوبر 2024
author image

ڈاکٹر فاروق عادل

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سیاست کی رفتار بہت تیز ہے، خصوصاً 26 ویں آئینی ترمیم کے ضمن میں، یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس پر بہت تقسیم اور بے یقینی ہے۔ کچھ ایسے معاملات ہی ہوتے ہیں جب مختلف اسٹیک ہولڈروں اور روٹھے ہوئے فریقوں کو میز پر بٹھانے کی ضرورت پڑتی ہے۔ گزشتہ دنوں ہمارے یہاں اس معاملے میں براہِ راست تو نہیں لیکن فلسطین کے مشترکہ معاملے پر سب کو اکٹھا کرنے کی کوشش ہوئی جس کا مثبت نتیجہ برآمد ہوا ہے۔

یہ حافظ نعیم الرحمن  تھے جنہوں نے غزہ پر اسرائیلی جارحیت کا ایک سال مکمل ہونے پر سیاست کو ایک طرف رکھا اور پاکستانی قیادت کے دروازے پر دستک دی۔ ایسا لگتا ہے کہ خلوص دل سے دی گئی دستک نے دلوں میں ہل چل مچا دی۔ یوں غزہ یکجہتی کانفرنس کی داغ بیل پڑی۔

یہ بھی پڑھیں:ایک کامیابی شہباز شریف کی اور ایک حماقت پی ٹی آئی کی

مرکزی امیر بننے سے قبل حافظ نعیم الرحمن کا لہجہ بہت تلخ تھا۔ اس کی وجہ ان کی کراچی کی سیاست میں تلاش کی جا سکتی ہے۔ مرکزی امیر منتخب ہو جانے کے بعد ان کے لب و لہجے میں تبدیلی کی توقع کی جا رہی تھی لیکن فوری طور پر ایسا ہوا نہیں۔ حافظ صاحب اپنے پیش رو امیر سراج الحق صاحب کی پیروی اور اپنے مخصوص لب و لہجے میں حکمرانوں پر گرجتے برستے رہے۔ قومی سیاست پر نظر رکھنے والے مبصرین کا خیال تھا کہ یہ انداز سیاست قومی منظر نامے میں انہیں کوئی بڑی جگہ دلانے معاون نہیں ہو سکتا تھا۔

حافظ صاحب کے امیر بننے سے قبل قومی سیاست نے کچھ ایسا پلٹا کھایا تھا کہ درست یا نادرست بلکہ عمومی تجزیے کے مطابق جماعت کی سیاست پی ٹی آئی کی سیاست کا ضمیمہ محسوس ہونے لگی تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ احساس خود حافظ صاحب کو بھی تھا اور ان کے خیر خواہوں کو بھی۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ خود جماعت کے بعض سوچنے سمجھنے والے حلقوں میں یہ احساس پایا جاتا تھا کہ ان دنوں کی جانے والی تند و تیز تنقید سے بہتر ہے کہ مسائل کی بنیاد پر با مقصد تنقید کی جائے۔ جماعت کے ان ہی سوچنے سمجھنے والے حلقوں میں مشاورت کے بعد فیصلہ ہوا کہ اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ بجلی کی قیمتیں ہیں۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر جائز طور پر تنقید کی جا سکتی ہے لیکن یہ تنقید اس صورت میں زیادہ بمعنی ہو گی، اگر وہ نتیجہ خیز ہو اور مسئلے کی نشان دہی کے ساتھ ساتھ اس کے حل کی تجاویز بھی پیش کی جائیں۔ یوں جماعت اسلامی نے آئی پی پیز کے معاملے میں لاہور سے اسلام آباد تک مارچ اور دھرنے کا فیصلہ کیا۔

یہ بھی پڑھیں:ایک کامیابی شہباز شریف کی اور ایک حماقت پی ٹی آئی کی

جماعت اسلامی کا یہ دھرنا غیر معمولی ثابت ہوا۔ اس کے حتمی نتائج آنا ابھی باقی ہیں یعنی عوام کو ابھی تک صحیح معنوں میں اس کے فوائد تو نہیں مل سکے لیکن اس کی جانب نتیجہ خیز کام بہرحال شروع ہو گیا ہے۔ بجلی  پیدا کیے بغیر کپیسٹی چارجز وصول کرنے والی 5 آئی پی پیز کے ساتھ حکومت کا معاہدہ ختم ہو چکا ہے۔ مستند ذرائع کے مطابق جس سے قومی خزانے کو تقریباً 600 ارب روپے کی بچت ہو گی۔ مزید خوش آئند اطلاع یہ ہے کہ حکومت بجلی کی فی یونٹ قیمت 8 سے 10 روپے تک لانے کی خواہشمند ہے جب کہ فوری طور پر  8 سے 10 روپے فی یونٹ کمی کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔

اگر ایسا ہو جاتا ہے تو عوام کو مہنگائی کے عذاب سے نجات دلانے کی طرف یہ ایک انقلابی پیشرفت ہوگی۔ یہ پیشْرفت ہماری برآمدات میں اضافے میں معاون ثابت ہو گی اور اس سے معیشت مضبوط ہو گی۔

ایسا لگتا ہے کہ حافظ نعیم الرحمن کو اطمینان ہے کہ حکومت اس ضمن میں درست سمت میں جا رہی ہے، لہٰذا وہ اسے وقت دے رہے ہیں۔ حکومت ٹھیک کام کر رہی ہو تو اس پر پی ٹی آئی کے انداز میں تنقید نامناسب ہے۔ حافظ نعیم الرحمن بھی یہی کر رہے ہیں لیکن اس معاملے سے بالکل لاتعلق ہو جانا بھی مناسب نہیں۔ جماعت اسلامی کی متعلقہ کمیٹی یا ٹیکنیکل ٹیم کو اس ضمن میں نہ صرف حکومت سے رابطے میں رہنا چاہیے بلکہ گوہر اعجاز کی طرح سرگرم عمل رہنا چاہیے اور جو بھی پیشرفت ہو، اس سے قوم کو آگاہ رکھنا چاہیے۔ دیکھتے ہیں کہ  جماعت اسلامی کی متعلقہ ٹیم کی مہارت اور میڈیا مینیجرز کی کارکردگی اس امتحان میں پورا اترتی ہے یا نہیں؟

یہ بھی پڑھیں:مولانا مودودیؒ کا اصل کارنامہ

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ غزہ یکجہتی کانفرنس کے تجربے نے امیر جماعت اسلامی کے انداز فکر پر غیر معمولی اثرات مرتب کیے ہیں۔ غزہ پر بدترین اسرائیلی جارحیت کا ایک سال مکمل ہونے پر پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کی توجہ اس طرف مبذول کرانا بھی اسی سلسلے کی کڑی ہو سکتا ہے۔ امیر جماعت اسلامی کی یہ تحریک بہت زیادہ کامیاب رہی ہے۔ عمومی طور پر اس کی سیاسی ہم مشرب سمجھے جانے والی پی ٹی آئی کے سوا تمام جماعتوں نے اس کا پرجوش خیر مقدم کیا۔ اس ضمن میں حکومتی اتحاد کے اہم راہنما بلاول بھٹو زرداری تو خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اسی طرح وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی نہایت گرم جوشی کے ساتھ اس تجویز کا خیر مقدم کیا پھر صدر مملکت آصف علی زرداری نے اس کانفرنس کی میزبانی کر کے مسئلہ فلسطین کے ضمن میں قوم کی آواز دنیا تک پہنچائی۔ غزہ یکجہتی کانفرنس کا تمام تر کریڈٹ حافظ نعیم الرحمن کو جاتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ حافظ صاحب نے ایسا کر کے ایک طویل مدت کے بعد جماعت اسلامی کو اس کے اصل اور تاریخی کردار کی طرف لوٹا دیا ہے۔

جماعت اسلامی کی سیاست سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے تاریخی کردار سے انکار  نہیں کیا جا سکتا۔ یہ جماعت قیام پاکستان کے تھوڑے ہی عرصے کے بعد سیاسی عتاب کا شکار رہی ہے۔ اس پر کئی بار پابندی عائد کی گئی، اس کے بانی مولانا مودودیؒ کو پھانسی کی سزا ہوئی، لیکن اس کے باوجود یہ جماعت حزب اختلاف کے اس مرکزی دھارے میں قائدانہ حیثیت میں شامل رہی جو آئین اور جمہوریت کی بحالی کے لیے جدوجہد میں مصروف تھا۔ 1977 کی سیاسی تحریک کے بعد اس جماعت کے کردار میں بہ تدریج فرق واقع ہوا، جس نے رفتہ رفتہ اسے سیاست کے مرکزی دھارے سے نکال دیا۔

یہ بھی پڑھیں:سعودی عرب: بار بار دیکھنے کی ہوس

اس وقت جماعت کا چیلنج یہ نہیں کہ وہ پارلیمنٹ میں کتنی بڑی طاقت بنتی ہے بلکہ یہ ہے کہ وہ سیاست کے مرکزی دھارے میں کیسے داخل ہو گی؟ اس کے طریقے 2 ہیں، اول مولانا مودودیؒ کی طرح جمہوری اور آئینی جدوجہد میں شرکت اور نمبر 2، قومی سیاست میں موجود دوری اور بدمزگی کے خاتمے کے لیے کام۔ یہ مصالحانہ کردار اسے اپنی عظمت رفتہ واپس دلا سکتا ہے۔ پاکستان کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ بھی یہی ہے۔ ایک طرف کچھ قوتیں پاکستان کو عراق، لیبیا اور شام جیسی آمریت میں بدلنے کی خواہش مند ہیں تو کچھ آئین کے مطابق اسے خالص جمہوری معاشرہ بنانے کی جدو جہد میں مصروف ہیں۔

مجھے لگتا ہے کہ حافظ نعیم الرحمن نے قوم کی نمائندہ سیاسی جماعتوں کو غزہ یکجہتی کے سلسلے میں ایک میز پر بٹھانے کا جو کارنامہ انجام دیا ہے، اس کے پس پشت بھی یہی فکر کار فرما ہے۔ یہ حکمت عملی جماعت اسلامی کو ملک کے مرکزی سیاسی دھارے میں واپس لانے میں معاون ثابت ہوگی۔

غزہ کانفرنس کے بعد 26 ویں آئینی ترمیم کے ضمن بھی ماضی  کے برعکس تیز رفتار پیش رفت ہوئی ہے۔ اس کی ممکنہ وجہ تو سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف کا طویل خاموشی کے بعد متحرک ہونا ہے، لیکن اس کا بہانہ بھی یہی کانفرنس بنی ہے۔ ماضی میں نوابزادہ نصر اللہ خان یہ کام کیا کرتے تھے۔ اس سے قبل مولانا مودودیؒ، اب یہ اعزاز حافظ نعیم کو حاصل ہو رہا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

فاروق عادل ادیب کا دل لے کر پیدا ہوئے، صحافت نے روزگار فراہم کیا۔ ان کی گفتگو اور تجزیہ دونوں روایت سے ہٹ کر ہوتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp