پنجاب کالج کے طلبا کے مطابق پنجاب کالج گلبرگ کمپیس میں چند روز قبل ایک طالبہ کے ساتھ مبینہ زیادتی کا کیس اس وقت سامنے آیا جب انٹر میڈیٹ کی ایک ٹیچر نے کلاس روم میں مذکورہ طالبہ کے کلاس فیلوز سے اس کی غیر حاضری کی وجہ جاننا چاہی۔
جس کے بعد بعض کلاس فیلوز نے لڑکی سے رابطہ کیا تو اس کا نمبر بند تھا، جس کے بعد انہوں نے لڑکی کے والدین سے رابطہ کرکے اپنی ساتھی کی خیریت دریافت کی تو اس کے والدین نے روتے ہوئے بتایا کہ ان کی بیٹی کے ساتھ گارڈ نے جنسی زیادتی کی ہے اور وہ آئی سی یو میں زیر علاج ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کالج میں مبینہ زیادتی کے حقائق جاننے والے رابطہ کریں، عظمیٰ بخاری کی اپیل
اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان نے اس واقعے کی تحقیقات کے لیے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دیدی ہے۔
اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان نے پنجاب اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی کی وائس چانسلر نے چند ہفتے پہلے ان کے پاس آکر رونے لگیں کہ ان کا ادارہ جو صرف خواتین کا ہے ادھر مرد عملے کو بھرتی کیا گیا ہے۔
ملک احمد خان نے کہا کہ بچیوں کو انتہائی ہراسمنٹ کا سامنا ہے حتی کہ مارکس کے لیے بچیوں کو مجبور کیا جاتا ہے، پنجاب کالج کا واقعہ ہوا اس میں ڈی آئی جی آپریشن کا بیان آیا کہ کوئی والدین سامنے نہیں آیا۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب کالج میں لڑکی سےمبینہ زیادتی کا معاملہ ہے کیا؟
انہوں نے کہا کہ پتا چل رہا ہے کہ سی سی ٹی وی فوٹیج اور ثبوت کو غائب کیا گیا ہے، یہ ہماری بھی بچیاں ہیں حکومت کو یہ معاملہ دیکھ کر اس کو حل کرنا چاہئیے۔
ان کا کہنا ہے کہ تعلیمی اداروں میں منشیات کا مسئلہ ہے یہ مسئلہ پرائیویٹ اداروں کو تباہ کررہا ہے۔
اسپیکر نے حکومتی و اپوزیشن ممبران پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی تشکیل دے دی، کمیٹی میں شامل رکن پنجاب اسمبلی مجتبیٰ شجاع الرحمن کو ہدایت کی پولیس افسران اداروں سے رپورٹ لے کر کمیٹی کو سفارشات مہیا کریں۔
یہ بھی پڑھیں: جنسی زیادتی کے لیے اغوا کیے گئے 29 لڑکے بازیاب، 3 ملزمان گرفتار
پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن رکن سجاد احمد نے تجویز دی کہ جہاں تعلیمی اداروں میں ہراسمنٹ اور منشیات پر تحقیقاتی کمیٹی بنائی ہے وہی تعلیمی اداروں میں بڑھتی فیسوں پر بھی کمیٹی بنائی جائے۔
’ ڈاکٹر بشری اس معاملے کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کررہی ہیں‘
اس موقع پر کمیٹی کی حکومتی رکن عظمی کاردار نے کہا کہ میں لاہور کالج فار ویمن کی سینڈیٹ ممبر ہوں معاملات کو بہتر انداز سے جانتی ہوں، وائس چانسلر ڈاکٹر بشری اس معاملے کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کررہی ہیں، میرے ہوتے ہوئے ایک سے 2 معاملات ہراسمنٹ کے آئے جس پر سختی سے کارروائی کرتے ہوئے ملوث لوگوں کے خلاف کارروائی کی گئی.