پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے وفاق مخالف احتجاج اور دھرنوں کے لیے بھاری فنڈز صرف ہونے کی خبر منظر عام میں آنے کے بعد خیبر پختونخوا حکومت پر سوالات کھڑے ہوگئے۔
گزشتہ دنوں پی ٹی آئی کے 15 اکتوبر کو ڈی چوک احتجاج کے حوالے سے اجلاس میں مبینہ طور پر وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا اور حماد اظہر کے درمیان گرما گرمی ہوئی تھی۔ ذرائع کے مطابق علی امین گنڈاپور نے مؤقف اپنایا تھا کہ لاہور احتجاج پر ان کے 75 کروڑ روپے خرچ ہوگئے۔
احتجاج کے لیے پیسے کہاں سے آتے ہیں؟
جلسے جلوس اور احتجاج پر تمام سیاسی جماعتیں پیسے لگاتی ہیں جس کے لیے پارٹی فنڈز سے بھی پیسے دیے جاتے ہیں جبکہ مذہبی جماعتیں ضلعی سطح پر فنڈز جمع کرتی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف سب سے زیادہ احتجاج کرتی آئی ہے جس کے حوالے سے پارٹی کا مؤقف ہے کہ کارکنان اور قائدین خود اس کے انتظامات کرتے ہیں اور پارٹی فنڈز سے بھی پیسے دیے جاتے ہیں۔
لاہور اور اسلام آباد احتجاج کے لیے 5،5 لاکھ روپے دیے گئے
پی ٹی آئی کے رہنما اور وزیر قانون آفتاب عالم نے وی نیوز کو بتایا کہ احتجاج اور دھرنوں کے لیے اراکین اسمبلی اور قائدین انتظامات کرتے ہیں اور اپنی جیب سے پیسہ لگاتے ہیں۔
انہوں نے تسلیم کیا کہ پارٹی بھی احتجاج کے لیے فنڈ دیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’لاہور اور اسلام آباد احتجاج کے لیے ہر ضلعے کو 5،5 لاکھ روپے فنڈز دیے گئے تھے‘۔
انہوں نے بتایا کہ احتجاج اور دھرنوں پر اخراجات زیادہ آتے ہیں اور ایک ضلعے کے لیے 5 لاکھ روپے ناکافی ہوتے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ احتجاج کے لیے انتظامات پر ان کے 28 لاکھ روپے صرف ہوئے۔
آفتاب عالم نے کہا کہ ہم سب کچھ اپنے جیب سے کرتے ہیں خواہ پارٹی دے نہ دے اور ہم پارٹی اور عمران خان کے لیے سب کچھ دینے کوتیار ہیں‘۔
مزید پڑھیے: پی ٹی آئی احتجاج، علی امین گنڈاپور نے ہرصورت اسلام آباد پہنچنے کا اعلان کردیا
جب ان سے پوچھا گیا کہ وزیر اعلیٰ جو پارٹی کے صوبائی صدر بھی ہیں فنڈز کے لیے پیسے کہاں سے لاتے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ صوبائی صدر کے پاس پارٹی فنڈز ہوتے ہیں جبکہ علی امین گنڈاپور اکثر سارے اخراجات خود برداشت کرتے ہیں اور ذاتی اکاؤنٹ سے دیتے ہیں۔
احتجاج کے لیے وزیر اعلیٰ پیسے تقسیم کرتے ہیں
تحریک انصاف کے ایک رکن اسمبلی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پارٹی کی کال پر وزیر اعلیٰ احتجاج کے انتظامات کے حوالے سے خصوصی ہدایت دیتے ہیں اور احتجاج کی کامیابی کا دارومدار بھی خیبر پختونخوا پر ہی ہوتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ احتجاج کی تیاریوں کے حوالے سے پارلیمانی پارٹی اجلاس ہوتا ہے جس کے بعد اراکین کو فنڈز بھی دیے جاتے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ گزشتہ احتجاج کے لیے ہر رکن اسمبلی کو 25 25 لاکھ روپے وزیر اعلیٰ نے دیے تھے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو نکالا جا سکے اور ان کے لیے ٹرانسپورٹ اور دیگر انتظامات کیے جاسکیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پارلیمانی پارٹی اجلاس کے بعد باقاعدہ طور بوریوں میں پیسے لائے جاتے اور تقسیم کیے جاتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ پیسے اپنی جیب سے دینے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن کسی کو اس حوالے سے حقیقت کا پتا نہیں چل رہا۔
وزیر قانون آفتاب عالم کے مطابق وزیر اعلیٰ زیادہ تر اخراجات اپنے جیب سے کرتے ہیں اور پارٹی فنڈنگ بھی خود کرتے ہیں۔
وزیر اعلیٰ ہاؤس کے ذرائع نے بتایا کہ اراکین اور پارٹی عہدیداروں میں فنڈز کی تقسیم پارلیمانی پارٹی کوآرڈینیٹر ریاض خان کے ذریعے ہوتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اراکین کے علاوہ آئی ایس آف اور دیگر پارٹی تنظموں کو فنڈز بھی دیے جاتے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ وزیر اعلیٰ جاگیردار ہیں اور ان کے ساتھ پارٹی ڈونرز بھی ہیں۔
مسلسل احتجاج اور اخراجات سے پی ٹی آئی کے اراکین بھی پریشان نظر آتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے ایک رکن صوبائی اسمبلی نے بتایا کہ لاہور جلسے پر ان کا 20 لاکھ روپے کا خرچہ آیا ہے اور ڈی چوک احتجاج کے لیے ان کے پاس پیسے نہیں بچے۔ انہوں نے کہا کہ وزیرا علیٰ پیسے دے دیتے ہیں لیکن میں نے آج تک ان سے ایک روپیہ بھی نہیں لیا۔
حکومت اور اختیار ہو تو پارٹی کے لیے وسائل کا استعمال آسان ہے
صوبائی حکومت کی جانب سے احتجاج میں شرکت پر اپوزیشن جماعتیں سرکاری وسائل کے استعمال کا الزام لگا رہی ہیں۔
خیبر پختونخوا اسمبلی میں جے یو آئی کے رکن اسمبلی مولانا لطیف الرحمان نے وی نیوز کو بتایا کہ جس کی حکومت ہو وہ وسائل کو استعمال کرتی ہے۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد میں پی ٹی آئی احتجاج سے کتنے کروڑ کا نقصان ہوا؟
انہوں نے بتایا کہ پی ٹی آئی احتجاج میں سرکاری گاڑیاں اور دیگر وسائل کا استعمال کیا جاتا ہے جو جائز نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’پرامن احتجاج ہر کسی کا حق ہے لیکن اس پر سرکاری وسائل کا استعمال نہیں ہونا چاہیے‘۔
’اخراجات اجلاس سے ہی شروع ہوجاتے ہیں‘
پشاور کے سینیئر صحافی فدا عدیل کا کہنا ہے کہ صوبے میں اقتدار میں ہو تے ہوئے احتجاج کے لیے سرکاری وسائل کا استعمال نہ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
انہوں نے بتایا کہ ابھی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس جاری ہے اور اس پر بھی خرچہ سرکار کا ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ وزیر اعلیٰ ہاؤس میں اجلاس کے دوران چائے کھانا وغیرہ سب سرکار پر ہوتا ہے اور یہیں سے سرکار کے پلے سے اخراجات شروع ہوجاتے ہیں۔
فدا عدیل نے کہا کہ وزیر اعلیٰ سے کون پوچھ سکتا ہے کہ پیسے کہاں سے لائے اور کہاں صرف کیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ احتجاج کے لیے جاتے وقت ریسکیو کی گاڑیاں اب بھی ٹیکسلا میں بند ہیں جو سرکاری وسائل کے استعمال کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔














