چند روز قبل لاہور میں پنجاب کالج کے گلبرگ کیمپس نمبر 10 میں ایک مبینہ زیادتی کا کیس سامنے آیا، جس کے خلاف مذکورہ کالج کے طلبا نے گزشتہ روز آواز بلند کی تو پہلے کالج انتظامیہ کے سیکیورٹی گارڈز کی جانب سے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور بعد میں طلبا کو پنجاب پولیس گرفتار کرتی رہی۔
اب اس مبینہ زیادتی کے خلاف لاہور سمیت پنجاب کے دیگر شہروں میں طلبا سراپا احتجاج ہیں، لاہور میں پنجاب کالج کے مختلف کیمپس اور جی سی یونیورسٹی سمیت دیگر نجی کالجز اور یونیورسٹیز کے طلبا مبینہ زیادتی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں، لاہور پولیس کی بھاری نفری چیئرنگ کراس پر تعینات ہے۔
یہ بھی پڑھیں:نجی کالج کی طالبہ سے زیادتی کا معاملہ، صوبائی وزیر اطلاعات اور اپوزیشن رکن میں تلخ جملوں کا تبادلہ
دوسری جانب جہانیاں، ملتان، شیخوپورہ، رائے ونڈ ، اوکارڑہ اور کامونکی میں بھی طلبا نے احتجاجی جلوس نکالے اور ٹائر جلا کر سڑک بلاک کردی، ملتان میں بوسن روڈ پر واقع کالج کے طلبا نے توڑ پھوڑ کی اور فرنیچر کو نقصان پہنچایا، جس پر پولیس نے لاٹھی چارج کر کے کئی طلبا کو حراست میں لے لیا۔
پنجاب اسمبلی میں بھی ہنگامہ
مبینہ زیادتی کیس پر پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن اور حکومتی رکن کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ ہوا ،اپوزیشن کی جانب سے کرنل ریٹائرڈ ملک شعیب امیر نے جب حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا تو صوبائی وزیر اطلاعات عظمی بخاری نے کہا کہ اس مبینہ زیادتی کیس پر سیاست نہ کی جائے کل اس کیس پر آدھا پاکستان غلط تشہیر کر رہا ہے اس پر 7 رکنی کمیٹی بنا دی گئی ہے۔
حکومتی رکن ملک وحید نے کہا کہ زیادتی کی شکار بچیوں کی خبر پر ایوان سویا ہوا نہیں ہے، بچی کے والد اور چچا نے بتایا کہ ان کی بچی سیڑھیوں سے گری، ریپ کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔
انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کے پاس افراتفری پھیلانے کے علاوہ کوئی اور موضوع نہیں ہے۔ رات کوبھی ڈی آئی جی آپریشنز نے بتایا کہ کوئی مدعی مقدمہ کے لیے آیا ہی نہیں۔ وزیر اعلیٰ نے بھی واقعہ کی اطلاع پر فوری کارروائی کے احکامات جاری کیے۔
ملک وحید نے کہا کہ پی ٹی آئی نے خواتین کے سروں سے دوپٹے اترواکر رقص کروایا اور معاشرہ کا حلیہ بگاڑنے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ اگر بچی سے زیادتی کا واقعہ ثابت ہوگیا تو درندے کو عبرت کا نشان بنائیں گے۔
دوسری طرف اپوزیشن رکن ندیم قریشی نے اپنی تقریر میں حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ کیا ایک وزیر اعلیٰ ہی خاتون ہے، عزت صرف انہی کی ہے۔کسی بچی کی کوئی عزت نہیں ہے۔ اگر بچی کے ساتھ زیادتی کا بیان حلفی لیاگیا تو ظلم ہوگا۔ کسی کو تو نشان عبرت بنانے دیں۔
ندیم قریشی کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس آف پاکستان اور لاہور ہائیکورٹ سے اپیل کرتا ہوں کہ بچی کو انصاف دیں۔ انہوں نے پوچھا کہ بچی کے ساتھ ہونے زیادتی پر حکومت کیوں تحقیقات اور ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے حکومتی مشینری کااستعمال نہیں کرتی؟
انہوں نے کہا کہ یہ نئی ریت چلی ہے کسی کی جان چلی جائے تو اگلے لمحہ معافی نامہ آ جاتا ہے۔ وزیر اعلیٰ ہوش کے ناخن لیں، ٹک ٹاک سے باہر آئیں۔ یہ گڈ گورننس نہیں ہے کہ اس ملک میں جتنا کوئی ظالم ہوگا وہ اتنے ہی بڑے عہدے پر فائز ہوگا۔ دفعہ 144کی خلاف ورزی پر مقدمہ درج ہوجاتا ہے لیکن 23 سال کی بچی سے زیادتی پر مقدمہ درج نہیں ہوا۔ حیران ہوں وزراء کو نیند کیسے آتی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی وزیر عظمیٰ بخاری کی تقریر سے دکھ ہوا۔
پولیس کا موقف
پولیس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ لاہور میں افسوسناک صورتحال سامنے آئی جس کی وجہ ڈس انفارمیشن تھی، اطلاعات کےمطابق یہ سننے کو ملا کہ ایک نجی کالج کی طالبہ جس کے ساتھ مبینہ طور پر زیادتی کی گئی ہے اور اسے نجی اسپتال لے جایا گیا ہے۔
’پولیس نے اس اسپتال کا ریکارڈ چیک کیا تو پتا چلا کہ زیادتی کی شکار کسی بھی لڑکی کو اس اسپتال میں داخل نہیں کیا گیا، دلچسپ بات یہ ہے کہ جس نجی اسپتال کا نام لیا جا رہا ہے وہاں میڈیکولیگل کیسز ڈیل نہیں کیے جاتے بلکہ اس اسپتال کی ایمرجنسی میں بھی ایسا کیس ڈیل نہیں کیا گیا۔‘
پولیس کے مطابق مذکورہ اسپتال کی تمام منازل چیک کرنے کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ مبینہ متاثرہ طالبہ کو اس نجی اسپتال میں نہیں لایا گیا، ابھی مزید تحقیقات کی جارہی ہیں، جلد مزید حقائق عوام کے سامنے رکھے جائیں گے۔
واضح رہے گزشتہ روز وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے معاملے کی تحقیقات کے لیے صوبائی چیف سیکریٹری کی سربراہی میں 7 رکنی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی تھی جبکہ پولیس تحقیقات کے مطابق مذکورہ زیادتی کے واقعے میں کوئی سچائی نہیں اور سیکیورٹی گارڈ بھی اس واقعہ سے انکاری ہے۔
پولیس اور صوبائی وزیر تعلیم کے بیانات میں تضاد؟
پنجاب پولیس بارہا کہہ رہی ہے کہ اس واقعہ کو ہوا دی جارہی ہے مگر صوبائی وزیر تعلیم رانا سکندر حیات نے بتایا کہ پنجاب کالج انتظامیہ کو کہہ دیا ہے کہ طلبا نے اپنی بہنوں کے لیے آواز اٹھائی ہے اور یہ ان کا حق ہے۔ ’اگر کسی طالب علم کی رجسٹریشن منسوخ ہوئی تو وہ بطور صوبائی وزیر تعلیم کارروائی کریں گے۔‘
صوبائی وزیر تعلیم نے کہا کہ ان کی دانست کے مطابق پنجاب کالج گلبرگ کیمپس میں طالبہ سے جنسی زیادتی کا واقعہ پیش آیا ہے، انہوں نے بتایا کہ پنجاب کالج کے مذکورہ کیمپس کی رجسٹریشن معطل کر دی گئی ہے اور بچوں کو دھمکانے والا پرنسپل نہیں رہے گا۔
مزید پڑھیں:لاہور میں نجی کالج کی طالبہ سے زیادتی کا معاملہ، اے ایس پی شہربانو نقوی کا اہم بیان سامنے آگیا
وزیر تعلیم رانا سکندر حیات کا کہنا تھا کہ طلبا نے کالج پرنسپل کیخلاف سی سی ٹی وی فوٹیج ڈیلیٹ کرنے کا الزام عائد کیا ہے جس کی تحقیقات کی جائیں گی۔’یہ بچے مشتعل نہیں بلکہ پڑھے لکھے بچے ہیں۔۔۔ وہ خود ان کے ساتھ ہیں۔‘