بھارتی صحافی نیانیما باسو، مودی اور بریانی

بدھ 16 اکتوبر 2024
author image

عمار مسعود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

شنگھائی تعاون تنظیم کے میڈیا سینٹر میں بے پناہ رش تھا۔ پاکستان اور بھارت کے صحافی مدتوں بچھڑے دوستوں کی طرح مل رہے تھے۔ وزیٹنگ کارڈز ایک دوسرے کو دیے جا رہے تھے۔ فون نمبر لکھوائے جا رہے تھے۔ قہقہے لگ رہے تھے۔ دوستوں کی طرح بات ہو رہی تھی۔ کسی  رنجش، کسی  اختلاف  کا شائبہ تک نہیں تھا۔ ان میں سے کوئی بھارتی چینل کا شعلہ بیان رپورٹر تھا، کسی نے اینکرنگ میں ترقی کے مدارج طے کیے تھے، کوئی فری لانسر تھا اور کوئی یو ٹیوبر۔ پہلی ملاقات میں صرف محبتوں اور مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوا۔  کسی نے شکوہ کیا نہ شکایت لگائی۔

مدتوں بعد ملنے والے پہلی پہلی ملاقات میں کم ہی کُھلتے ہیں۔ کچھ حجاب مانع ہوتا ہے، کچھ احترام درپیش ہوتا ہے لیکن عزیز ترین لوگوں کے ساتھ بھی زیادہ دیر بیٹھیں تو پھر بات کھلنے لگتی ہے، پھر زخم ہرے ہونے لگتے ہیں۔

اس سے پہلے کہ بات تلخیوں کی طرف جائے کچھ تعریف حکومت پاکستان کی ہو جائے۔  ایس سی او میڈیا سینٹر میں انتظام کمال کا تھا۔ رونقیں سارے جہان کی تھیں۔ سہولتیں بہم تھیں اور روشنیاں جگمگا رہی تھیں۔ مہمانوں کا استقبال ایسے ہی ہونا چاہیے تھا۔ ہم نے اپنا فریضہ بھرپور طریقے سے نبھایا۔

جو لوگ  بھارت سے آئے ان سب کے لیے یہ سب کچھ نیا تھا۔ انوکھا تھا۔ وہ جس پاکستان کو تصور کر کے پاکستان آئے تھے یہ پاکستان اس سے مختلف، ماڈرن اور خوبصورت تھا۔ یہاں پڑھی لکھی بااعتماد خواتین صحافی بھی تھیں، مستعد عملہ بھی تھا، جدید ٹیکنالوجی سے بہرہ ور نوجوان بھی تھے اور نامور صحافی جن کا ڈنکا دنیا میں بجتا ہے وہ بھی اس میڈیا سینٹر میں موجود تھے۔ انٹرنیٹ بھی تیز رفتار تھا، کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ بھی دھرے تھے۔ کھانے کا وافر سامان بھی مہمانوں کے لیے موجود تھا۔

بھارت سے آئے تمام صحافی اس بات پر حیران تھے کہ انہیں تو کسی اور پاکستان کا بتایا گیا ہے۔ وہ تو سمجھتے تھے کہ یہاں لوگ غاروں میں رہتے ہیں۔ عورتیں یہاں گھروں میں یا پنجروں میں قید ہوتی ہیں۔ تعلیم یافتہ لوگ ڈھونڈے سے نہیں ملتے۔ بھوک اور بے سروسامانی یہاں مستقل ڈیرے ڈالے ہوئے ہے۔ یہاں انٹرنیٹ نام کی چڑیا کا وجود نہیں ہے۔ یہ تصور پاکستان آ کر تبدیل ہو گیا۔ پاکستان کی یہ شکل نہ ان کے میڈیا نے کبھی دکھائی نہ ان کے سوشل میڈیا نے کبھی اس حوالے سے کوئی اطلاع دی۔

بات تو سب سے ہوتی رہی مگر ایک بھارتی صحافی نیانیما باسو سے زیادہ گفتگو رہی۔ ان کا اصل تعلق تو بنگال سے ہے مگر دلی میں رہائش پذیر ہیں۔ ڈپلومیسی اور ڈیفنس کے موضوعات پر لکھتی ہیں۔  اے بی پی نیوز کے حوالے سے جانی جاتی ہیں۔ اردو/ ہندی میں سہولت سے گفتگو کرتی ہیں۔ جہاں اردو جواب دے جاتی ہے وہاں انگریزی کا تڑکہ بھی اسی سہولت سے لگاتی ہیں۔ یہ ہر ذی شعور پاکستانی اور انڈین کی طرح دونوں ملکوں میں بہتر تعلقات کی خواہاں ہیں۔ یہ بھی تلخیاں بھول جاننے اور رنجشیں مٹانے کی خواہش رکھتی ہیں۔

انہوں نے بھارتی سماج میں گزشتہ دس برس  سے جو کدورتیں بڑھی ہیں ان پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ انہوں نے تنقید کے اپنے حق کا خوب استعمال کیا۔ ان کے بقول دس برس میں بھارتی معاشرے میں جو تبدیلیاں آئی ہیں ان میں نفرت بہت نمایاں ہے۔ ہندو مسلم اختلاف بہت بڑھ گیا ہے۔ اب لوگ ہر کسی کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اب لوگ دوسروں کو اپنے پیمانے پر پرکھتے ہیں۔ اب اعتدال بھارتی معاشرے میں مفقود ہو چکا ہے۔ اب شدت ہر رویے میں آ چکی ہے۔ اب برداشت خواب ہو گئی ہے۔

نیا نیما باسو نے مودی حکومت کا نام تو نہیں لیا مگر ان کے ہر لفظ سے یہ بات عیاں تھی کہ گزشتہ دس برس میں بھارت وہ بھارت نہیں رہا جس کے وہاں کے لوگ قصیدے پڑھا کرتے تھے۔ جہاں سیکولر ازم کے نعرے لگا کرتے تھے۔ جہاں ہندو مسلم اتحاد پر کہانیاں لکھی جاتی تھیں۔ جہاں کبھی امن کی بات بھی ہوا کرتی تھی۔ جہاں اختلاف کی گنجائش ہوا کرتی تھی۔ جہاں بچے بڑے میں تمیز ہوا کرتی تھی۔ جہاں لوگ دوسروں کو جینے کا حق دینے کی بات کرتے تھے۔ اب یہ بھارت وہ بھارت نہیں ہے۔

اب کے بھارت میں نفرت کا جذبہ شدت سے در آیا ہے۔ اب وہاں دلیل کی گنجائش نہیں رہی۔ اب وہاں تفریق کی زبان میں بات ہوتی ہے۔ اختلافات کو ہوا دی جاتی ہے۔ لوگوں کو مذہب کی بنیاد پر پرکھا جاتا ہے۔ سیکولر ازم کو آئین سے نکالنے کی بات عام ہوتی ہے۔ لوگ ایک دوسرے پر الزام لگانے میں پہل کرتے ہیں۔ مقبول لیڈر ہونے کے زعم نے حالات بدل دیے ہیں۔ اب نعرے چلتے ہیں۔ آگ لگتی ہے۔ نہ احترام باقی رہتا ہے نہ اعتدال روا رکھا جاتا ہے۔ دس برس پہلے ایسا نہیں تھا۔

نیا نیما باسو آزادی اظہار کی قدغنوں پر بھی خائف تھیں۔ ان کے خیال میں بات کرنے کی آزادی ہونی چاہیے۔ اختلاف کا نتیجہ انتقام نہیں ہونا چاہیے۔ سماج کو اختلافات کے کنویں میں قید نہیں کرنا چاہیے۔ لوگوں کو نفرت کے علاوہ بھی سوچنے کا موقع دینا چاہیے۔ سیاست اچھی چیز ہے اگر اس کو دشمنی کی بھینٹ نہ چڑھا دیا جائے۔ لوگ اب اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ اختلافات گھر گھر میں ہیں۔ آس پڑوس میں ہیں۔ لوگ ایک دوجے کو اس طرح پرکھتے ہیں کہ ان کے گھر کے کوڑا کرکٹ پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ تاکہ ان کے اوپر یہ الزام لگایا جا سکے کہ یہ  ’مچھی ماس‘ کھاتے ہیں۔

تلخیوں پر بات ہوتی رہے تو بات ختم نہیں ہوتی مگر نیانیما باسو نے آخر میں یہ کہہ کر دل جیت لیا کہ بریانی تو بھارت میں بھی بہت بنتی ہے مگر اس میں پاکستان کی بریانی والی بات نہیں۔ میں نیانیما کی اس بات سے بھی اختلاف نہیں کر سکا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp