پختونخوا کے سنگم پر واقع مکڑا پہاڑ نہ صرف سیاحتی بلکہ تاریخی اعتبار سے بھی ایک منفرد مقام ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا اور آزادجموں و کشمیر کو ملانے والا تقریباً 13 ہزار فٹ بلند کوہ ہمالیہ کا مکڑا پہاڑ ایک ایسا دلکش سیاحتی مقام ہے جو مہماتی سیاحت کے شوقین افراد کے دل موہ لیتا ہے۔
مکڑا پہاڑ آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد سے تقریباً 55 کلو میٹر جبکہ شوگراں کے سیاحتی مقام سری پائے اور آزاد کشمیر کی وادی کوٹلہ کے گاؤں بھیڑی سے 15 کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے۔
کوہ مکڑا کے دامن میں واقع گاؤں بھیڑی، سری پائے، کوائی، پونجہ، مظفرآباد اور مری و گلیات سے اس کی خوبصورتی اور بلندی یکساں اور منفرد لگتی ہے۔
کوہ مکڑا کی تاریخی اہمیت
وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے سینیئر صحافی اورنگزیب جرال نے کہا کہ کوہ مکڑا تاریخی اعتبار سے اس لیے اہم رہا ہے کہ یہ سید احمد شہید کے دور میں کشمیر سے آنے والے مددگار قافلوں کا محفوظ زمینی راستہ تھا جبکہ سلک روٹ کی شاخیں اسی مقام سے وادی نیلم کو جاتی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ برطانوی دور میں پانی اور سرحدوں کی تقسیم کے لیے بنائے جانے والے کمیشن کے سربراہ میجر جیمز ایبٹ نے اس کوہ مکڑا سے وادی نیلم کے علاقے شاردہ کے پہاڑوں پر بتیاں لگائیں جو پانی اور حد کو تقسیم کرتی تھیں۔
اورنگزیب نے کہا کہ مظفرآباد میں مکڑا پہاڑ بلند ترین مقام پر واقع ہے اور اس سے منسلک جبسر، سوکڑ، کوہ گنجا، نیلہ و باندہ مالیاں ایسے سیاحتی مقامات ہیں جہاں آپ سال کے چاروں موسموں سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔
ایک اور سینیئر صحافی آصف رضا میر نے کہا کہ آج بھی کوہ مکڑا خیبرپختوا اور کشمیر کو آپس میں تقسیم کرتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر سری پائے اور بھیڑی کو ملانے والے راستے کو بہتر بنادیا جائے اور لوگ وہاں سے بآسانی آیا جایا کریں تو اس سے نہ صرف دونوں اطراف تہذیب و ثقافت اور مقامی زبانوں کو محفوظ بنانے میں مدد ملے گی بلکہ سیاحت کو بھی فروغ ملے گا۔