پردہ گرتا ہے

اتوار 9 اپریل 2023
author image

صنوبر ناظر

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

رات کے پونے آٹھ بجے ہیں، رمضان کا دوسرا عشرہ جاری ہے۔ افطار کے بعد سڑکوں پر سناٹا طاری ہے، اِکا دُکا کوئی گاڑی زن سے گزر جاتی ہے۔ یہ وقت ڈرائیو کے لیے موزوں ہوتا ہے۔  یہی سوچ کر میں نے اپنے والدین سے ملاقات کے لیے گاڑی نکالی۔ ابھی موڑ کاٹ کر ہائی وے پر آئی تھی کہ ایک زور دار دھماکے کی آواز نے سہما دیا۔

وہ چاروں سیاہ ہنڈا سٹی میں راولپنڈی سے نکل کر اسلام آباد ہائی وے پر رواں دواں تھے۔ چونکہ دور دور تک کوئی ٹریفک نہیں ہوتا لہٰذا ڈرائیور کو  گاڑی بھگانے میں کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوتا، جب کہ ہوتا اس کے اُلٹ ہے۔

شاید چاروں بچپن کے دوست ہوں اور کئی سال بعد ملے ہوں، کچھ تو جوانی کا نشہ ہو سکتا ہے اور کچھ ایک دوسرے سے عرصے بعد ملنے کا خمار۔

زندگی کی کئی داستانوں کے راز دار دوست غالباً اپنے اپنے حالات زندگی سے ایک دوسرے کو آگاہ بھی کر رہے ہوں گے۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی اپنی گھریلو ذمہ داریوں سے نالاں ہو تو دوسرا اپنی ملازمت سے، شاید ایک اپنے والدین کی روک ٹوک کا ناقد ہو تو ایک اپنی ادھوری محبت کے غم میں نڈھال۔

حالات اور غم روزگار جہاں اپنوں کو حصوں میں بانٹ دیتے ہیں وہیں چھوٹی چھوٹی سانجھی خوشیاں ایک دوسرے سے جوڑے بھی رکھتی ہیں۔

کیا معلوم گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے دوست نے مستی میں جھومتے ہوئے ایکسیلیٹر پر دباؤ کچھ زیادہ بڑھا دیا ہو اور گاڑی ہوا سے باتیں کرنے لگی ہو گی۔ کچنار پارک کے قریب گاڑی تیز رفتاری کے باعث بے قابو ہونے لگی۔

جب کوئی خود اپنی جان کا دشمن ہوجائے تو کوئی معجزہ بھی رونما نہیں ہوتا۔ دوسری جانب سے ایک بی ایم ڈبلیو آرہی تھی۔  ہنڈا سٹی قلابازی کھاتے ہوئے دوسری جانب سے آتی بی ایم ڈبلیو کے اوپر آگری۔ ہنڈا سٹی کے پرخچے اڑ گئے اور چاروں دوست موقع پر ہی موت کی آغوش میں چلے گئے۔ لوگ موبائل سے ویڈیو بنانے لگے۔ ماؤف دماغ لیے جب میں امی کے گھر پہنچی تب تک اس اندوہناک حادثے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی تھی۔

21 اپریل 2013ء، اتوار کا دن اور صبح کے چھ بج رہے ہیں۔ حسب معمول اتوار کی صبح شاہراہیں سنسان ہوتی ہیں، نہ گاڑیوں کا جم غفیر ہوتا ہے  نہ ہارن کی چیختی چنگھاڑتی آوازیں۔ لوگ پورے ہفتے کی تھکن چھٹی والے دن دیر تک سو کر اتارتے ہیں۔

چونکہ میرا اس دن ایک ٹریننگ سیشن تھا اس لیے صبح سویرے ہی گھر سے نکل پڑی تھی۔ جیسے ہی میری گاڑی اسلام آباد ہائی وے پر آئی تو دور سے چند موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں دائرے میں کھڑی نظر آئیں۔ چند فرلانگ آگے آئی تو پوری سڑک پر جابجا لکڑیاں بکھری دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ اتنی ساری لکڑیاں کہاں سے آگریں تھیں ۔

گاڑیوں کے ہجوم میں میری گاڑی سست رفتاری سے  آگے بڑھی تو دونوں ہائی وے کے بیچ گرین بیلٹ پر ایک نوجوان نیم جان پڑا  تھا اور ساتھ ہی لال وٹز الٹی پڑی نظر آئی ۔

گاڑی اس رفتار سے گرین بیلٹ پر لگے درختوں سے ٹکرائی تھی کہ تنوں کے پرخچے اڑ کر چاروں جانب بکھر گئے تھے۔ میں بچے کا  چہرہ چاہنے کے باوجود نہیں دیکھ  پائی۔ پورے راستے میں یہی دعا کرتی آئی کہ بس بچے کی جان بچ جائے۔

سیشن میں رہ رہ کر وہی منظر آنکھوں کے آگے آجاتا۔ کام ختم کر کے جیسے تیسے گھر پہنچی تو اپنی بیٹیوں کو روتے دیکھ کر دھل گئی ۔

جس بچے کا میں چہرہ نہیں دیکھ پائی تھی وہ میری بیٹیوں کا بچپن کا دوست تھا جو سینکڑوں بار اسی لال وٹز میں ہمارے گھر آچکا تھا۔

ہنستا مسکراتا بچہ صبح گھر والوں کے لیے حلوہ پوری کا ناشتہ لینے نکلا تھا لیکن کیا خبر تھی کہ سولہ برس کا خوبصورت اور خوب سیرت بچہ تیز رفتاری کے باعث سب کو روتا چھوڑ جائے گا۔

عینی شاہدین کے مطابق سوائے تیز رفتاری کے کسی کو مورود الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا تھا۔ میں جب بھی اس مقام سے گزرتی ہوں میری نظروں کے سامنے وہی منظر تازہ ہوجاتا ہے۔

14 مارچ 2014، رات کے دو بجے ہیں۔ چوبیس کروڑ کے ملک میں چوبیس دوست ملنا بھی خوش قسمتی میں شمار ہوتا ہے۔

مسعود عالم اور ان کی فیملی سے تعلق گھر والا تھا۔ بچے بھی ہمارے ہم عمر تھے  اس لیے ہر دوسرے دن ایک دوسرے کے گھر آنا جانا معمول کی بات تھی۔ جب بھی میرے گھر آتے سیدھے باورچی خانے میں آکر میرا ہاتھ بٹاتے۔ ان سے میرا رشتہ بھائی اور دوست کا سا تھا۔ ہر بات مجھ سے شیئر کرتے۔ زندہ دل آدمی ایسے کہ بچوں کے ساتھ بچہ بن جاتے۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ایسے کہ بس پروگرام بنا کر مطلع کر دیتے کہ فلاں دن نکلنا ہے۔

10 مارچ کی صبح مجھے کال کر کے حسب معمول فیصلہ سناتے ہوئے بولے کہ کل صبح ہم سب مونال میں ناشتہ کرنے جا رہے ہیں سو تیار رہنا۔

میری طبیعت ذرا ناساز تھی سو میں نے کہا کہ کل کے بجائے اگلے ویک اینڈ پر چلتے ہیں۔ خلاف معمول وہ بنا حیل و حجت مان گئے۔

13 کی شام وہ اپنے ایک دوست کے گھر دیگر دوستوں میں گھرے بیٹھے تھے۔ وقت گزرنے کا تب علم ہوا جب گھر سے فون آیا کہ ایک بج چکا ہے۔ باتوں میں اتنے مگن تھے کہ نکلتے نکلتے بھی ڈیڑھ بجا دیا۔ سب دوستوں کو الوداعی جملے کہے اور پھر جلد ملنے کا وعدہ کر کے اپنی منی پجیرو  میں گھر جانے کے لیے شارٹ کٹ راستہ اختیار کیا۔ تھکن اور نیند کے غلبے کے باعث سروس روڈ کے  نشیب و فراز پر گاڑی کا توازن برقرار نہیں رکھ پارہے تھے۔ لیکن گھر پہنچنے کی جلدی میں گاڑی کی رفتار حد سے بڑھاتے چلے گئے۔

G-10 کے سروس روڈ  کی اترائی پر کئی پڑے گڑھے کافی عرصے سے مرمت طلب تھے، لیکن انتظامیہ کی بے حسی کے باعث وہ گڑھے مزید گہرے اور نہ جانے کتنے حادثات کا باعث بنتے جا رہے تھے۔

مسعود عالم ناگہانی افتاد سے بے خبر گاڑی کو بھگا رہے تھے۔ اترائی پر جب تیز رفتار گاڑی کا ٹائر گڑھے میں پڑا تو دوسرے ہی لمحے گاڑی پل سے ٹکرا کر نالے میں جاگری۔

گاڑی درختوں کے بیچ الٹی پڑی تھی اور فون کی مسلسل بجتی رنگ ٹون تاریکی اور سناٹے کو چیر رہی تھی۔

14 مارچ  کی صبح بچیوں کو اسکول ڈراپ کر کے گھر آئی تو مسعود عالم کی ناگہانی موت کی خبر میری منتظر تھی۔ میں روتے روتے پچھتانے لگی کہ کاش میں مونال جانے سے انکار نہ کرتی تو ان سے ملاقات تو ہو جاتی۔ میرے کانوں میں آج بھی مسعود عالم کی کھنکتی اور قہقہے لگاتی آواز گونجتی ہے۔

ایسے کتنے سانحات ہمیں جھنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ آئے دن ہماری آنکھوں کے سامنے ایسے دل دہلا دینے والے حادثات ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہماری کوتاہیاں، لا پروائیاں قائم دائم رہتی ہیں ۔ ہم ایسے ناگہانی واقعات کو بے حسی سے بھلا دیتے ہیں۔ جب کہ نہ ہی وہ سانحے قابل فراموش ہوتے ہیں نہ وہ رستے اور شاہراہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان حادثات کے لیے کسے مورودالزام ٹھہرایا جائے؟  شاہراہیں تو منزل مقصود پر پہنچانے کا ذریعہ ہوتی ہیں۔ اپنے پیاروں سے ملانے کا باعث بنتی ہیں۔ شاہراہیں ہماری اپنی غفلت اور غیر ذمہ دارانہ رویوں کی باعث قتل گاہوں میں تبدیل ہوتی ہیں۔ جہاں ایک طرف امیر زادے  اکثر ڈرگز کر کے اپنی دولت کی نمائش کرنے شاہراہوں پر دندناتے نظر آتے ہیں وہیں نچلے طبقے کے نوجوان موٹر سائیکلوں پر ون ویلنگ اور خطرناک کرتب کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ تیز رفتاری اور رف ڈرائیونگ ایک نفسیاتی عارضہ ہے اور اس میں تعلیمی یا جہالت کی ڈگری لینا قطعی ضروری نہیں۔

دوسری جانب وہ افراد ہیں جو ٹریفک کے اصول وضوابط سے مکمل آگاہی رکھنے کے باوجود رات گئے تک اپنے شغل میلوں کے بعد بے جا خود اعتمادی  سے گاڑی کو ہوا کا گھوڑا بنا کر  اپنے ہی ہاتھوں مارے جاتے ہیں۔

ایک اہم وجہ کم عمر افراد کے ہاتھ میں بغیر لائسنس کے گاڑی یا موٹر سائیکل تھما دینا بھی ہے۔ یہ قانون کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کے ساتھ دشمنی کے زمرے میں شمار ہوتا ہے۔

حادثے صرف چند لمحے کا کھیل ہوتے ہیں لیکن زندگی کو موت میں بدل دیتے  ہیں۔ مرنے والے مر جاتے ہیں مگر اپنے پیچھے صرف منتظر آنکھیں، بے بس دل اور شاہراہوں پر ٹائروں کے خونی نشانات چھوڑ جاتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

صنوبر ناظر ایک متحرک سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔ تاریخ میں ماسٹرز کر رکھا ہے جبکہ خواتین کی فلاح اور مختلف تعلیمی پراجیکٹس پر کام کر چکی ہیں۔ کئی برس سے قومی و بین الاقوامی میڈیا اداروں کے لیے باقاعدگی سے لکھتی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp