ایک ریلی میں ڈاکٹر شاہنواز کی سر کی قیمت لگائی گئی، جبکہ دوسری ریلی اتوار کے روز کراچی میں ڈاکٹر شاہنواز کو انصاف دلانے کے لیے نکلی، جس کی وجہ سے دفعہ 144 نافذ کی گئی۔ ایک ریلی تشدد اور گنڈا گردی کو فروغ دے رہی تھی، جبکہ دوسری ریلی سندھ کی خواتین کی سربراہی میں پرامن اور باشعور عوام کے ذریعے انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے نکالی گئی۔ ایک ریلی میں نفرت انگیز نعروں کی گونج تھی، جبکہ دوسری میں امن اور انسانی حقوق کے مطالبات سنائی دے رہے تھے۔
ڈاکٹر شاہنواز کے قتل کے بعد سندھ کے باشندے اور تنظیمیں متحرک ہو گئیں اور 13 اکتوبر کو ایک پرامن احتجاج کا فیصلہ کیا گیا، جس کو رواداری مارچ کا نام دیا گیا۔ یہ مارچ سندھ میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی کے خلاف اور شاہنواز کو انصاف دلانے کے ساتھ ساتھ سندھ کی شناخت کو بچانے کی کوشش تھی، جو کہ ایک پرامن اور روحانی تعلیمات کا حامل ہے۔ مختلف دور میں یہ دھرتی مختلف طریقوں سے امن پسندی کی تعلیمات فراہم کرتی رہی ہے، جو اس سرزمین کا اصل ورثہ اور شناخت ہے۔ لیکن سندھ پولیس کے کچھ اور ہی منصوبے تھے۔
ایک انتہائی دردناک منظر وہ تھا جب سندھ کے معزز لوگوں کو سڑک پر گھسیٹا جا رہا تھا۔ جب پولیس نے جامی چانڈیو کو سڑک پر گھسیٹنے کی کوشش کی، تو نوجوانوں نے ان کی حفاظت کے لیے قدم بڑھائے۔ یہ منظر ضیاء الحق کے دور حکومت کی یاد دلاتا ہے، جب سول سوسائٹی کے لوگوں کو سڑکوں پر گھسیٹنا ایک معمول کی بات بن گئی تھی۔ حبیب جالب کی وہ تصویر بھی ذہن میں آتی ہے، جہاں پولیس انہیں مار پیٹ کر لے جا رہی تھی۔ سیف سمیجو کے ساتھ بھی یہی ہوا، اور صرف یہ فرق تھا کہ حبیب جالب کے کپڑے نہیں پھاڑے گئے تھے۔ ضیاء کے دور میں خواتین کو سڑک پر گھسیٹنے کی جو تصویریں سامنے آئی تھیں، وہ منظر بھی دوبارہ دیکھنے کو ملا۔ اور یہ سب دیکھنا، خاص طور پر صحافیوں پر لاٹھی چارج کے واقعات، کسی ذہنی صدمے سے کم نہیں تھا۔
“ورثے میں ہمیں یہ غم ہے ملا اس غم کو نیا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیا صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا”
حبیب جالب کہتے تھے کہ شاعری سننے والے دو ہی ادارے ہوتے ہیں: ایک دربار اور ایک عوام، اور میں اپنے آپ کو عوام کا شاعر سمجھتا ہوں، اور اس پر مطمئن ہوں۔
بات رواداری مارچ کی ہو رہی تھی۔ اس تمام تذلیل اور مار پیٹ کے بعد وزیر داخلہ سندھ ضیا الحسن لنجار نے پیر کو پریس کانفرنس میں وضاحت کی کہ محب وطن کیا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ رواداری مارچ نے پاکستان کو نقصان پہنچایا ہے اور ایک پرامن احتجاج نے ملک میں ہونے والی سرمایہ کاری کو متاثر کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ شاہنواز کا قتل پولیس کی جانب سے ہوا، لیکن وہ پھر بھی محب وطنی کی تعلیم ان لوگوں کو دینا چاہتے تھے جو شاہنواز کو انصاف دلانے کے لیے نکلے تھے۔ ظلم اور زیادتی حکومت کی جانب سے ہوئی، جبکہ محب وطن کی تعریف بھی حکومت دینا چاہتی ہے۔ اگر یہی پولیس اس احتجاج کو روکتی، جس میں شاہنواز کی سر کی قیمت لگائی گئی تھی، اور انہیں تحفظ فراہم کرتی، تو سب کچھ کتنا مختلف ہوتا۔
اس مایوس کن صورتحال میں باعثِ اطمینان بات یہ ہے کہ سندھ کی عوام امن اور انصاف کے لیے اپنی آواز بلند کر رہی ہے۔ جبری تشدد اور سیاسی بے حسی کے باوجود، لوگ ایک پرامن اور جمہوری معاشرے کے قیام کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ ان کی کوششیں نہ صرف ڈاکٹر شاہنواز کے لیے انصاف کا مطالبہ ہیں، بلکہ سندھ کی ثقافتی اور روحانی شناخت کو بچانے کی بھی ایک کوشش ہیں۔ یہ صورتحال سندھ کے لوگوں کی عزم و ہمت کی عکاسی کرتی ہے، جو ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ حقیقی تبدیلی عوامی آوازوں کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ حکام عوام کی آواز سنیں اور امن کی اس دھرتی کو واقعی امن کا گہوارہ بنائیں۔