ایک پروافغان طالبان ویب سائٹ المرصاد(Al-Mirsaad)نے گزشتہ روز مختلف سوشل میڈیافورمز پر پاکستانی پریمئر ایجنسی آئی ایس آئی کے خلاف کئی سنگین الزامات عائد کئے ہیں۔المرصاد کے انگلش، پشتو ٹوئٹر ہینڈل پر یہ سٹوری چلائی گئی ہے کہ آئی ایس آئی نے بدنام زمانہ عالمی دہشت گرد تنظیم آئی ایس آئی ایس(داعش)کے جنوبی ایشیا میں پراجیکٹ کی ذمہ داری اٹھائی ہے اور وہ داعش کے دہشت گردوں کو سپورٹ کررہی ہے، وغیرہ وغیرہ۔
اس سٹوری کا ہم غیر جانبدارانہ، غیر جذباتی تجزیہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر پہلے المرصاد کا پس منظر جان لیجیے۔
’المرصاد‘ افغان طالبان کے افغانستان میں برسراقتدار آنے کے چند ماہ بعد قائم کی گئی۔ جنوری 2023میں اس نے سوشل میڈیا پوسٹیں شروع کیں۔ ابتدا میں صرف پشتو میں پوسٹیں کی جاتی تھیں، پھر اسے بڑھاتے ہوئے دری، فارسی، اردو، انگریزی اور عربی میں بھی مواد شائع کیا جانے لگا۔
المرصاد کی اپنی ویب سائٹ بھی ہے جبکہ یہ فیس بک، ٹوئٹر، ٹیلی گرام وغیرہ پر بھی اپنی موجودگی برقرار رکھے ہوئے ہے۔ افغان طالبان کے بنائے گئے مختلف واٹس ایپ گروپوں میں بھی اس کا مواد شیئر کیا جاتا ہے۔
افغان طالبان حکومت نے ہوشیاری سے کام لیتے ہوئے اسے اَن آفیشل رکھا ہے، مگر درحقیقت یہ موجودہ افغان حکومت کی ہدایات پر ہی عمل کرتی ہے۔ ویسے بھی افغانستان میں یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی میڈیا ہاؤس، ویب سائٹ یا سوشل میڈیا گروپ اپنے طور پر آزادانہ کام کر سکے یا وہ افغان طالبان مخالف مواد شیئر کر پائے۔ طالبان کی سخت ترین سنسر پالیسی اس کی اجازت نہیں دیتی۔
المرصاد کامرکزی ہدف آئی ایس آئی ایس(ISIS) یعنی داعش ہے۔ یہ داعش کے خلاف مواد شیئر کرتی ہے اور طالبان موقف سامنے لاتی ہے۔ المرصاد ویب سائٹ قائم کرتے وقت یہ بتایا گیا کہ عربی میں المرصاد کا مطلب واچ ٹاور ہے،اس کا بنیادی سلوگن ہی یہ ہے کہ المرصاد طالبان کی نظریاتی جنگ میں مضبوط قلعے کا کام کرے گا۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ افغان طالبان حکومت اس ویب سائٹ المرصاد اور اس کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو اپنے سے اختلاف رکھنے والے ہمسایہ ممالک کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈے کے لیے بھی استعمال کرتی ہے، جس ہمسایہ ملک سے افغان حکومت کا اختلاف ہے، اس کا داعش سے تعلق جوڑ کر بدنام کرنے کی کوشش کی جائے۔
سنٹرل ایشیائی ریاستوں میں سے ازبکستان، ترکمانستان اور تاجکستان کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں۔ طالبان کی پچھلی حکومت میں تینوں پڑوسیوں کے ساتھ ان کی کشیدہ صورتحال تھی، تاہم اس بار مختلف وجوہات کی بنا پر ازبکستان اور ترکمانستان کے افغان طالبان حکومت کے ساتھ خوشگوار تعلقات ہیں، تاہم تاجکستان کے ساتھ کشیدگی موجود ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ المرصاد پر پچھلے چند ماہ میں کئی سٹوریز میں تاجکستان اور داعش کا تعلق جوڑنے کی بھی کوشش کی گئی، کبھی تاجکستان کو طالبان مخالف اتحاد این آر ایف (NRF)جوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے۔کبھی کہا جاتا ہے کہ افغانستان میں خودکش حملہ کرنے والے تاجکستانی جنگجو ہیں، وغیرہ وغیرہ۔
یاد رہے کہ این آرایف کی قیادت مشہور شمالی اتحاد کمانڈر احمدشاہ مسعود مرحوم کے صاحبزادے احمد مسعود کررہے ہیں۔ چند دن قبل اسی المرصاد نے دعویٰ کیا کہ این آر ایف کا داعش کے ساتھ گٹھ جوڑ ہو گیا ہے۔ اس پر المرصاد کا خوب ٹھٹھا اڑایا گیا کیونکہ احمد مسعود اور اس کے این آر ایف کے جنگجو تو خالص سیکولر اور غیر مذہبی لوگ ہیں، ان کا داعش کے ساتھ تعلق بنتا ہی نہیں۔
افغان طالبان کی اَن آفیشل ویب سائٹ المرصاد نے تازہ حملہ پاکستانی پریمئیر ایجنسی آئی ایس آئی پر کیا ہے اور اسے داعش یعنی آئی ایس آئی ایس کو جنوبی ایشیا میں پھیلانے کی کوشش کرنے کا ذمہ دا ر قرار دیا ہے۔ یہ الزام تو خیر فضول اور لغو ہے ہی، مگر اس کے ساتھ نہایت غیر منطقی بھی ہے۔
المرصاد نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر جو سٹوری شیئر کی ہے۔ اس میں تین مرکزی نکات ہیں۔ المرصاد نے دعویٰ کیا ہے کہ افغانستان میں پکڑے جانے والے ایک تاجک خودکش بمبار نے اعتراف کیا ہے کہ اسے داعش نے ریکروٹ کیا تھا اور اسے کوئٹہ میں عسکری اور مذہبی ٹریننگ دی گئی۔ المرصاد کا دوسرا الزام یہ ہے کہ آئی ایس آئی جنوبی ایشیا میں داعش پراجیکٹ اس لیے چلا رہی ہے کہ پاکستان کو پیسوں کی شدید ضرورت ہے اور حکومت کے پاس سرکاری ملازمین کو تنخواہ دینے کے پیسے تک نہیں اور وہ ان دہشت گرد تنظیموں کی مدد کر کے ان سے مالی مدد لے سکتا ہے۔
یہ الزامات اس قدر بچگانہ ہیں کہ پڑھنے والے کو ہنسی آجائے۔ یہ سٹوری ابواحمد کے قلمی نام سے چلائی گئی تاہم نیچے متن کی پہلی ہی سطر میں مصنف کا نام لکھا گیا ہے عبدالعلی کالیوال۔مصنف بے چارے کو لگتا ہے بنیادی نوعیت کی معلومات بھی حاصل نہیں۔اسے یہ بھی پتہ نہیں کہ پاکستانی حکومت کے کیا مالی حالات ہیں،؟ماہانہ تنخواہ کا بجٹ کتنا ہوتا ہے اور ماہانہ پنشن کتنی دی جاتی ہے؟وہ شاید سمجھتا ہے پاکستان افغانستان کی طرح کا کوئی چھوٹا ساملک ہے جہاں دو، چار ہزار لوگوں کو تنخواہ دینا پڑے گی اور باقیوں کو اقوام متحدہ کے ادارے تنخواہ دیں گے۔
المرصاد کی فضول جھوٹی سٹوری کے مصنف کو ذرا بھی اندازہ نہیں کہ پاکستان میں سرکاری ملازمین کی تنخواہیں اور پنشن پر ماہانہ اربوں روپے صرف ہوتے ہیں اور کسی دہشت گرد تنظیم کی اتنی اوقات نہیں کہ وہ پاکستان جیسے بڑے ملک کو مدد دینے کا خواب میں بھی سوچ سکے۔
اسے یہ بھی نہیں معلوم کہ پاکستان کو مدد لینا ہو تو وہ عالمی معاشی اداروں سے لیتا ہے اور ابھی پچھلے چند ہفتوں ہی میں اس نے آئی ایم ایف سے ساڑھے سات ارب ڈالر کا پروگرام لیا ہے، ایشیائی ترقیاتی بینک سے ساڑھے چھ ارب ڈالر کے قریب
اسے آسان قرضہ ملا ہے جبکہ چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات وغیرہ نے بھی پاکستان کی بھرپور مدد کی ہے۔ جس ملک کو ایک سال میں انیس ارب ڈالر کے قریب محفوظ قرضہ دنیا کے نامور معاشی اداروں سے مل جائے، اسے کیا پڑی ہے کہ وہ کسی احمقانہ ایڈونچر کا سوچے؟
دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ آئی ایم ایف کا قرضہ امریکا اور یورپ کی مدد کے بغیر ممکن نہیں، چین اور سعودی عرب نے اس کے لیے اپنے قرضے رول اوور کیے اور پاکستان کی مدد کی ٹھوس گارنٹی کی۔ روس کے پاکستان سے تعلقات بہت بہتر ہوئے ہیں اور ابھی دو دن کی شنگھائی تعاون کانفرنس پاکستان میں منعقد ہوئی ہے۔ یہ سب ممالک یعنی امریکا، یورپی یونین، چین، روس اور سعودی عرب، یہ سب داعش کے شدید ترین مخالف ہیں۔ المرصاد جیسی چیتھڑا ویب سائٹ تو انفارمیشن کے ان ذرائع کا سوچ بھی نہیں سکتی جو امریکا، یورپ، روس، چین، سعودی عرب وغیرہ کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو حاصل ہیں۔اگر خدانخواستہ پاکستان کا داعش کے ساتھ کسی بھی طرح کا تعلق ہوتا یا اس کا شبہ بھی ہوتا تو یہ ممالک پاکستان کی یوں مدد کرتے؟ اس کے پیچھے یوں کھڑے ہوجاتے؟
رہی بات کسی نام نہاد تاجک خود کش بمبار کے خودساختہ اعترافات کی تو ان کی کوئی حیثیت نہیں۔ افغان طالبان کے نظام عدل کی دنیا میں کوئی کریڈیبلٹی ہے اور نہ ہی ان کی پولیس یا تفتیشی نظام کی دنیا میں کوئی وقعت۔ مارپیٹ کر کسی سے، کچھ بھی کہلوایا جا سکتا ہے۔ ویسے منطقی طور پر جائزہ لیں تو یہ اعتراف بھی لایعنی ہے۔ کوئٹہ میں ہزارہ آبادی خاصی تعداد میں مقیم ہے جو شیعہ اور شدید اینٹی داعش ہے۔ وہاں پر پشتون، بلوچ گروپ بھی موجود ہیں۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ داعش جیسی کسی تنظیم کے لیے ٹریننگ کیمپ بنایاجائے۔
ایک اور اہم فیکٹر یہ ہے کہ پچھلے چند برسوں میں پاکستان کے اندر داعش کے خلاف کئی آپریشن ہوچکے ہیں، متعدد داعش جنگجو مارے گئے، پاکستانی اداروں نے داعش کا نیٹ ورک بننے سے پہلے ہی اکھاڑ پھینکا۔ ویسے بھی داعش سرے سے نیشن سٹیٹ کے ہی خلاف ہے، اس کا پاکستان سے کیا اتحاد ہوسکتا ہے؟ پاکستان جیسا مستحکم اسلامی ملک تو داعش کی ٹارگٹ لسٹ پر رہتا ہے۔ پاکستان اور داعش ایک دوسرے کے متصادم نظریے اور ایک دوسرے کے مخالف فلسفے ہیں۔ ان کا آپس میں گٹھ جوڑ منطقی طور پرممکن نہیں۔
سوال یہ ہے کہ اچانک المرصاد نے بیٹھے بٹھائے پاکستانی ایجنسی آئی ایس آئی کے خلاف یہ بے بنیاد سٹوری کیوں چلائی؟ افغان امور کو سمجھنے اور نظر رکھنے والے بعض ماہرین سے یہ سوال پوچھا تو اندازہ ہوا کہ اصل تکلیف اور غصہ اس بات پر ہے کہ پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف نے شنگھائی تعاون کانفرنس میں اپنے خطاب میں یہ کیوں کہا کہ افغان سرزمین کا دہشت گردی کے لیے استعمال روکنا ہوگا۔
افغان طالبان حکومت کا غصہ بے جا ہے کیونکہ وزیراعظم شہباز شریف نے کوئی غلط بات تو نہیں کی، کیا فتنہ الخوارج یعنی ٹی ٹی پی کے دہشت گرد افغانستان سے پاکستان آ کر دہشت گردی نہیں کررہے؟ کیا پاکستان میں دہشت گردی کی جو خوفناک لہر پچھلے ایک سال میں آئی ہے، اس کے سرے افغان سرزمین سے نہیں ملتے؟
ویسے پاکستانی وزیراعظم نے تو افغانستان کی انسانی ہمدردی کے حوالے سے مدد کی بات بھی کی تھی، یہ بات طالبان فنڈڈ ویب سائٹ المرصاد کو نظر نہیں آئی؟