بنگلہ دیش کے انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل نے جمعرات کو سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے ہیں، جو اگست میں طالب علموں کی زیر قیادت انقلاب کے ذریعے اقتدار سے بے دخل کیے جانے کے بعد بھارت میں جلاوطن ہیں۔
بنگلہ دیش کے انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل (آئی سی ٹی) کے چیف پروسیکیوٹر محمد تاج الاسلام کے مطابق، عدالت نے شینخ حسینہ کو 18 نومبر کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔
Read more: https://t.co/qmgqEhSpmb#Bangladesh #SheikhHasina #ICT #ArrestWarrant #NewsUpdates pic.twitter.com/aLNGfDnFOh
— The Daily Star (@dailystarnews) October 17, 2024
77 سالہ شیخ حسینہ نے 15 سال تک بنگلہ دیش پر حکومت کی، اس عرصے میں سیاسی مخالفین کی حراست اور ماورائے عدالت قتل سمیت انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیاں ہوئی تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: بنگلہ دیش سپریم کورٹ بار کا بھارت سے شیخ حسینہ واجد کو واپس بھیجنے کا مطالبہ
چیف پروسیکیوٹر تاج الاسلام نے عدالتی فیصلے کو قابل ذکر قرار دیتے ہوئے کہا کہ سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ رواں برس جولائی اور اگست کے دوران قتل و غارت اور انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے سرپرست تھیں۔
بنگلہ دیش سے فرار ہونے کے بعد شیخ حسینہ کو عوامی سطح پر نہیں دیکھا گیا، ان کا آخری معلوم مقام نئی دہلی، بھارت کے قریب ایک فوجی ایئربیس تھا، بھارت میں سابق بنگلہ دیشی وزیر اعظم کی موجودگی نے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کو جنم دیا ہے، جس کی وجہ سے بنگلہ دیش نے ان کا سفارتی پاسپورٹ منسوخ کردیا ہے۔
مزید پڑھیں:بنگلہ دیش سے فرار کے بعد شیخ حسینہ واجد کا مستقل ٹھکانہ اب کیا ہوگا؟
بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان ملزمان کی حوالگی کا معاہدہ موجود ہے، تاہم اس کی ایک شق انکار کی اجازت دیتی ہے اگر الزامات سیاسی نوعیت کے ہوں، ایسے میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ آیا شیخ حسینہ کو بنگلہ دیش میں مقدمے کا سامنا کرنے کے لیے بھارتی حکومت انہیں واپس ان کے وطن بھیجے گی کہ نہیں۔
رہنما عوامی لیگ شیخ حسینہ کی حکومت نے پاکستان سے بنگلہ دیش کی 1971 کی آزادی کی جنگ کے دوران ہونے والے جنگی جرائم کی تحقیقات کے لیے 2010 میں متنازع انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل قائم کیا تھا۔
مزید پڑھیں: حسینہ واجد کس طرح اپنے خاندان میں پلاٹوں کی بندربانٹ کرتی رہیں؟ ہوشربا انکشافات
تاہم، ٹربیونل کو اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے گروپوں کی جانب سے اس کے طریقہ کار کے منصفانہ فقدان کی وجہ سے بڑے پیمانے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے، اور اسے بڑے پیمانے پر شیخ حسینہ کی جانب سے سیاسی حریفوں کو ختم کرنے کے لیے استعمال کیے جانے والے آلے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
عدالت اس وقت متعدد مقدمات کی تحقیقات کر رہی ہے جس میں سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ پر اپنے اقتدار کے دوران بیشتر طالب علموں پر مشتمل مظاہرین کے بڑے پیمانے پر قتل عام کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔