اسرائیل فوج کا دعویٰ ہے کہ وہ 7 اکتوبر 2023 کے حملوں کے ماسٹر مائند کو ایک سال سے تلاش کر رہی تھی لیکن حماس کے سربراہ یحییٰ سنوار غزہ میں روپوش ہو چکے تھے۔ 61 سالہ سنوار کے بارے میں خیال ہے کہ انہوں نے زیادہ تر وقت غزہ کی پٹی میں موجود خفیہ سرنگوں میں گزارا۔ اس دوران ان کے ساتھ ان کے محافظ رہے اور اسرائیل سے لائے جانے والے یرغمالیوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا گیا۔
اسرائیلی میڈیا رپورٹس کے مطابق آخر کار ایک سال بعد جنوبی غزہ میں سنوار کا اسرائیلی فوج سے سامنا ہوا، جب ان کے محافظ بھی زیادہ نہیں تھے اور وہاں کوئی یرغمالی بھی نہیں تھا۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ ان کی ایک یونٹ بدھ کے روز رفع کے تل السلطان علاقے میں گشت کر رہی تھی کہ انہیں 3 عسکریت پسند دکھائی دیے، جنہیں مقابلہ کرکے مار دیا گیا۔
مزید پڑھیں:یحییٰ سنوار غار میں چھپے نہیں، بہادری سے لڑتے ہوئے میدان میں شہید ہوئے، ایران
جب ان لاشوں کا معائنہ کیا جا رہا تھا تو ان میں سے ایک شخص کی حماس کے سربراہ سنوار سے بہت زیادہ مشابہت تھی۔ ممکنہ پھندوں کی وجہ سے لاش تو وہاں سے نہیں ہٹائی گئی تاہم اس کی ایک انگلی کاٹ کر اسرائیل بھیجی گئی تاکہ جانچ کی جا سکے۔ بعد ازاں جگہ کو محفوظ کرکے ان کی لاش کو بھی نکال کر اسرائیل لایا گیا۔
اسرائیلی فوج کے ترجمان ڈینیئل ہیگری کا کہنا ہے کہ فوجی اہلکاروں کو حماس کے رہنما کی موجودگی کا علم نہیں تھا لیکن وہ اس علاقے میں کارروائی جاری رکھے ہوئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ فوجیوں نے 3 افراد کو ایک گھر سے دوسرے گھر میں بھاگتے ہوئے دیکھا، ان کا مقابلہ کیا گیا اور وہ تینوں ایک موقع پر الگ الگ ہوگئے۔
ڈینیئل ہیگری کے مطابق سنوار کے نام سے شناخت ہونے والے شخص کو اس وقت مارا گیا جب وہ اکیلے ایک عمارت میں داخل ہوئے۔ انہیں عمارت کے اندر ڈرون کی مدد سے تلاش کرنے کے بعد مار دیا گیا۔ بتایا گیا ہے کہ سنوار کسی بھی یرغمالی کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال نہیں کر رہے تھے جس کی وجہ شاید یہ تھی کہ وہ نظروں میں آئے بغیر وہاں سے نکلنا چاہتے تھے یا ان کے زیادہ تر محافظ مارے جا چکے تھے۔
مزید پڑھیں:یحییٰ سنوار کی شہادت کا دعویٰ، حماس کا صورتحال کا جائزہ لے کر بیان دینے کا فیصلہ
اسرائیل نے جمعرات کی دوپہر پہلے یہ اعلان کیا کہ وہ یحییٰ سنوار کی ممکنہ ہلاکت کی تصدیق کر رہا ہے۔ اس اعلان کے چند منٹوں بعد ہی سوشل میڈیا پر ایسی تصاویر شیئر کی جانے لگیں جن میں ایک شخص کی لاش دکھائی دی جس کے سر پر کافی بڑا زخم ہے اور اس کی شکل حماس کے رہنما سے ملتی جلتی تھی۔
تاہم حکام کا کہنا تھا کہ اس موقع پر مارے جانے والے تینوں افراد کی شناخت کی تصدیق نہیں کی جا سکتی۔ تاہم ان کے رہنما پُراعتماد ہیں کہ انہوں نے سنوار کو مارا ڈالا ہے، موت کی تصدیق سے پہلے کچھ ضروری ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں۔ ٹیسٹوں میں زیادہ وقت نہیں لگا۔ جمعرات کی شام تک اسرائیل نے اعلان کر دیا کہ اس نے سنوار کو ہلاک کر دیا ہے۔
اگرچہ سنوار کو ٹارگٹڈ آپریشن کے دوران ہلاک نہیں کیا گیا تھا لیکن آئی ڈی ایف کا کہنا ہے کہ وہ کئی ہفتوں سے ان علاقوں میں کام کر رہی تھی جہاں انٹیلی جنس نے ان کی موجودگی کا اشارہ دیا تھا۔ اسرائیلی افواج نے سنوار کو جنوبی شہر رفح تک محدود کر دیا تھا اور وہ آہستہ آہستہ انھیں پکڑنے کے لیے آگے بڑھ رہے تھے۔
مزید پڑھیں:حماس کے نئے سربراہ یحییٰ السنوار کون ہیں؟
سنوار ایک سال سے زیادہ عرصے سے روپوش تھے۔ حماس کے دیگر رہنماؤں جیسے محمد دیف اور اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت اور 7 اکتوبر کے حملوں کے لیے استعمال کیے جانے والے انفراسٹرکچر کی تباہی کے بعد انہوں نے بلاشبہ محسوس کیا تھا کہ اسرائیلی دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ایک بیان میں آئی ڈی ایف نے کہا کہ حالیہ ہفتوں میں جنوب میں اس کی کارروائیوں نے یحییٰ سنوار کی آپریشنل نقل و حرکت کو محدود کر دیا اور فورسز کی جانب سے ان کا تعاقب کیا جانا ان کی ہلاکت پر منتج ہوا۔ سنوار کی ہلاکت اسرائیل کے لیے ایک بڑا ہدف تھا۔ نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ جنگ جاری رہے گی، کم از کم ان 101 یرغمالیوں کو بچانے کے لیے جو اب بھی حماس کے قبضے میں ہیں۔