طالبہ مبینہ زیادتی کیس، لاہور ہائیکورٹ نے فل بینچ تشکیل دے دیا

جمعہ 18 اکتوبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

لاہور ہائیکورٹ نے تعلیمی اداروں میں مبینہ حراسگی اور جعلی خبروں سے ہنگاموں کے خلاف تحقیقات کے لیے دائر درخواست پر فل بینچ تشکیل دے دیا ہے۔

لاہور ہائیکورٹ کی چیف جسٹس عالیہ نیلم نے تعلیمی اداروں میں مبینہ ہراسگی کے واقعات کی تحقیقات کے لیے دائر درخواست پر سماعت کی۔

چیف جسٹس عالیہ نیلم فیک نیوز کے ذریعے صوبے میں ہنگامے کرنے کے خلاف فل بینچ تشکیل دے دیا، چیف جسٹس عالیہ نیلم فل بینچ کی سربراہی کریں گی۔

جسٹس فاروق حیدر اور جسٹس علی ضیا باجوہ فل بینچ کا حصہ ہوں گے، چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی فل بینچ 22اکتوبر کو سماعت کرے گا۔

 درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عالیہ نیلم نے آئی جی پنجاب پولیس ڈاکٹر عثمان انور سے استفسار کیا کہ ویڈیوز کو وائرل ہونے سے کیوں نہیں روکا گیا؟

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ عالیہ نیلم نے اعظم بٹ اور عظمیٰ بخاری کی درخواستوں پر سماعت کی، اس موقع پر عدالتی حکم پر آئی جی پنجاب سمیت دیگر افسران عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے استفسار کیا کہ آئی جی صاحب ویڈیوز کو وائرل ہونے سے روکا کیوں نہیں گیا؟ آپ نے ویڈیوز روکنے کے لیے کسی اتھارٹی سے رابطہ کیا؟ اس پر آئی جی کا کہنا تھا کہ ہم نے پی ٹی اے سے رابطہ کیا۔

‘آپ نے جاگنا تب ہوتا ہے جب آگ لگ چکی ہوتی ہے سب جل چکا ہوتا ہے’

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ عالیہ نیلم نے آئی جی پنجاب سے مکالمہ کیا کہ آج 18 تاریخ ہے، ویڈیو 13 اور 14 کو وائرل ہوئی، آپ نے جاگنا تب ہوتا ہے جب آگ لگ چکی ہوتی ہے سب جل چکا ہوتا ہے۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ عالیہ نیلم نے آئی جی سے استفسار کیا کہ آپ نے متعلقہ اتھارٹیز سے بہت تاخیر سے رابطہ کیا، آئی جی پنجاب نے جواب دیا کہ 700 سے زائد اکاؤنٹس سے ویڈیوز وائرل ہوئیں۔

مزید پڑھیں:لاہور میں طالبہ کے ساتھ مبینہ زیادتی کا معاملہ، ابتدائی رپورٹ سامنے آگئی

آئی جی نے عدالت کو بتایا کہ پولیس کے پاس سائبر کرائم کو دیکھنے کے لیے صرف ایک ادارہ ہے، جس پر چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کا کہنا تھا کہ آئی جی صاحب یہ آپ کی ناکامی ہے آپ نے بچوں کو سڑکوں پر آنے دیا۔ آپ ہمیں 2 دن کا حساب دیں کہ 14 اور 15 اکتوبر کو آپ نے کیا کیا، آج بھی ایکس اور ٹک ٹاک پر ویڈیوز پڑی ہیں، 2 دن آپ نے کچھ نہیں کیا آپ انتظار کرتے رہے۔

‘جو بچیاں سڑکوں پر آئیں اگر انہیں کچھ ہوجاتا تو کون ذمہ دار تھا؟’

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کا کہنا تھا کہ آپ نے جو دستاویزات جمع کرائی ہیں، اس کے بعد آپ نے 2 دن کچھ نہیں کیا اور 16 اکتوبر سے کام شروع کیا، نیت ہو تو سب کام ہو جاتے ہیں۔ آئی جی پنجاب نے کہا کہ ڈیٹا کو اپلوڈ ہونے سے روکنا آسان نہیں نا ہی ہمارے پاس اتھارٹی ہے، ہم ایک اکاؤنٹ سے روکیں گے تو دوسرے سے ری پوسٹ ہو جاتی ہے۔

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے استفسار کیا کہ جو بچیاں سڑکوں پر آئیں اگر انہیں کچھ ہوجاتا تو کون ذمہ دار تھا؟ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب خالد اسحٰق نے کہا کہ 12 اکتوبر کو ایک انسٹا گرام پوسٹ سے کہا گیا کہ نجی کالج میں لڑکی کا ریپ ہوا، اسی دن ایس ایس پی متعلقہ کیمپس میں پہچنے اور تحقیقات شروع کیں۔ فرسٹ ایئر کے بچوں کے اپنے واٹس ایپ گروپ ہیں جن پر کسی کا کوئی کنٹرول نہیں، ہر گروپ میں انسٹا گرام پوسٹ شئیر ہوئی مگر کسی کو معلوم نہیں تھا کہ ہوا کیا ہے۔

مزید پڑھیں:صوابی: 12 سالہ طالبہ سے اسکول میں جنسی زیادتی، چوکیدار گرفتار

آئی جی پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ پولیس نے 700 سے زائد اکاؤنٹس کی شناخت کی، انگلینڈ میں بھی اپلوڈ روکنے کی طاقت نہیں، اس پر جسٹس عالیہ نیلم کا کہنا تھا کہ وہاں کی بات مت کریں۔

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کا کہنا تھا کہ اگر ارادہ ہو تو سارے کام ہوتے ہیں، ہمارا کیوں ارادہ نہیں تھا۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ علاقے کے اے ایس پی کالج پرنسپل سے ملے، سی سی ٹی وی چیک کیا، ہر بچہ کہہ رہا تھا کہ زیادتی ہوئی ہے مگر کسی کے پاس کوئی ثبوت نہیں، دوسرے کیمپس کے بچے بھی اس کیمپس پہنچ گئے، ایک منتظم طریقے سے یہ سب کچھ ہوا۔

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ توڑ پھوڑ ہوئی تو وزیراعلیٰ مریم نواز نے خصوصی کمیٹی تشکیل دی، کوئی زیادتی کا شکار سامنے نہیں آیا، افواہ یہ ہے کہ مبینہ زیادتی 9 یا 10 اکتوبر کو ہوئی۔

مزید پڑھیں:طالبہ کے ساتھ زیادتی کی خبر پھیلانے والوں کو ثبوت دینا ہوں گے، عظمیٰ بخاری نے واضح کردیا

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ 2 اکتوبر کو ایک بچی کا لاہور جنرل اسپتال میں علاج ہوا، 4 اکتوبر کو بچی نجی اسپتال چلی گئی، 5 دن آئی سی یو میں رہی، صرف ایک بچی کالج نہیں آرہی تھی تو کسی نے کہا کہ ہمیں زیادتی کی شکار بچی مل گئی۔ آپ کہیں گی تو میں آپ کی اس بچی سے ملاقات کروا سکتا ہوں۔

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ ایک اور صاحب نے جو خود کو وکیل کہتے ہیں ان بچیوں کا حوالہ دیتے ہوئے ایک ویڈیو بنائی، اس وکیل کو مجسٹریٹ کی جانب سے مقدمے سے بری کردیا گیا۔ مقدمے سے بری کرنے کا نیا رواج چل پڑا ہے، ہم جسے گرفتار کرتے ہیں وہ اگلے دن ہیرو بن جاتا ہے۔

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ عالیہ نیلم نے ریمارکس دیے کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ ایک منظم طریقے سے ہوا، مگر جب یہ ہوا تو موقع پرستوں نے اس سے فائدہ اٹھایا۔ لاہور ہائیکورٹ نے حالیہ واقعات اور سوشل میڈیا پر فیک نیوز کے حوالے سے فل بینچ بنانے کا فیصلہ کرلیا، چیف جسٹس لاہور ہائیکوٹ عالیہ نیلم کا کہنا تھا کہ منگل کے روز فل بنچ ان کیسز پر سماعت کرے گا۔ انہوں نے حکم دیا کہ ڈائریکٹر جنرل وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) ان حالیہ واقعات کے حوالے سے تفتیش کریں۔ عدالت نے ڈی جی ایف آئی اے کو آئندہ سماعت پر ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا ہے

مزید پڑھیں:لاہور میں نجی کالج کی طالبہ سے زیادتی کا معاملہ، اے ایس پی شہربانو نقوی کا اہم بیان سامنے آگیا

مقدمے کا پس منظر

14 اکتوبر کو لاہور کے نجی کالج کی طالبہ سے مبینہ زیادتی کی خبر سوشل میڈیا پر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی تھی جس کے طلبہ و طالبات مشتعل ہوکر سڑکوں پر نکل آئے تھے اور مذکورہ کالج میں توڑ پھوڑ کرتے ہوئے شدید احتجاج کیا تھا، اس دوران پولیس سے جھڑپوں میں 27 طلبہ زخمی ہوگئے تھے۔

پولیس نے طلبہ کی نشاندہی پر نجی کالج کے سیکیورٹی گارڈ کو حراست میں لے لیا تھا، تاہم مبینہ طور پر متاثرہ طالبہ کے اہلخانہ کی جانب سے درخواست جمع نہ کرانے کے باعث تاحال واقعے کی ایف آئی آر درج نہیں ہوسکی ہے۔ اے ایس پی شہر بانو نقوی نے متاثرہ طالبہ کے مبینہ والد اور چچا جو ماسک سے اپنا چہرہ چھپائے ہوئے تھے، کے ساتھ ایک وڈیو بیان جاری کیا تھا۔

اے ایس پی کے ساتھ کھڑے شخص نے کہا کہ لاہور کے نجی کالج میں پیش آئے واقعے کے حوالے سے سوشل میڈیا پر ویڈیوز وائرل ہورہی ہیں، جن میں ان کی بچی کا نام لیا جارہا ہے لیکن ایسی کوئی بات نہیں ہے، ہماری بچی گھر کی سیڑھیوں سے گری، جس سے اس کی کمر پر چوٹ آئی ہے اور اسے آئی سی یو لے جایا گیا تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp