یہ اکتوبر 1999 میں جنرل مشرف کی بغاوت کے بعد کا واقعہ ہے۔ کیپٹن حلیم صدیقی رہائی کے بعد کراچی پہنچے تو انھوں نے ایک بات کہی:
’ ہماری عدلیہ ٹھیک ہو جائے تو سمجھو سارے مسئلے حل ہو جائیں‘۔
کیپٹن صاحب کو اللہ تعالیٰ تادیر سلامت رکھے۔ ان کے ساتھ میرا محبت کا تعلق ہے۔ انھوں نے یہ کہا تو میں خاموش نہ رہ سکا، عرض کیا کہ ’کیا عدلیہ کا لفظ اسٹیبلشمنٹ سے تبدیل نہ کر لیا جائے؟’۔
میری تجویز پر وہ مسکرائے اور کہا عدلیہ فقط چند ججوں کا نام نہیں۔ ان کے نامکمل جملے پر میں نے الجھ کر سوال کیا:
‘ جیسے؟’
‘ وہ ایسے کہ۔۔۔
کیپٹن صاحب نے مسکرا کر کہا کہ عدلیہ صرف جسٹس عبد الرشید، جسٹس کارنیلئس اور جسٹس ایم آر کیانی جیسے نیک نام بزرگوں پر مکمل نہیں ہو جاتی، اس کی تاریخ جسٹس منیر سے شروع ہوتی ہے اور یہاں تک پہنچتی ہے‘۔
یہ بھی پڑھیں:حافظ نعیم کا اعزاز
وہ نوجوانی کا زمانہ تھا، تجربے سے کم باتیں سمجھ میں آتی تھیں، میرے گھر کا ماحول ادبی تھا، اس سے زیادہ سیاسی اور سیاست بھی نظریاتی۔ میرے والد حکیم غلام حسین عادل مرحوم اللہ انھیں کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے، جسٹس کارنیلئس کے بڑے قدر دان تھے جو غیر مسلم ہونے کے باوجود اسلامی نظام حیات کے بڑے معترف تھے اور کھلے عام فرمایا کرتے تھے کہ پاکستان کی ترقی اور استحکام کا دروازہ اسی نظام کے قیام سے کھلے گا۔ ان کے اس سخن نے میرے والد مرحوم کی محبت خرید لی اور ایک مستقل رویہ ان میں پیدا کر دیا کہ اس ادارے میں جیسے کیسے لوگ بھی بھرے رہیں، کوئی فرق نہیں پڑتا اگر ایک آدھ دانہ بھی اچھا آ جائے تو قوم کی قسمت بدل سکتی ہے۔
والد صاحب کا انتقال میرے لڑکپن میں ہو گیا تھا۔ بچوں کو اپنے والدین سے محبت ہوتی ہے۔ وہ انھیں دوسروں سے بڑھ کر عاقل اور دانا سمجھتے ہیں۔ میرا معاملہ بھی مختلف نہیں تھا لیکن جوں جوں عمر بڑھتی گئی سمجھ میں آتا گیا کہ والد صاحب غلط نہیں فرماتے تھے لیکن اب ہمارے یہاں جسٹس رشید، جسٹس کارنیلئس اور جسٹس کیانی جیسے فرشتہ صفت منصف نہیں پائے جاتے، جسٹس ارشاد جیسی مخلوق پائی جاتی ہے جو سائل کی داد رسی کرے نہ کرے، ظالم کا دامن مراد بن مانگے ہی بھر دیتے ہیں۔
جنرل مشرف نے آئینی نظام سے انحراف کرتے ہوئے طاقت کے بل بوتے پر اقتدار پر قبضہ کر لیا تو مسلم لیگ کے رکن قومی اسمبلی سید ظفر علی شاہ ایڈوکیٹ نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا اور استدعا کی کہ مشرف آئین شکنی کا مرتکب ہوا ہے، براہِ کرم اس کے غیر آئینی اقدامات کو کالعدم کر کے وطن عزیز کو اس کا آئینی نظام لوٹا دیا جائے۔
یہ بھی پڑھیں:ایک کامیابی شہباز شریف کی اور ایک حماقت پی ٹی آئی کی
پوری قوم کی طرف سے دائر کی گئی اس فریاد پر جسٹس ارشاد کا فیصلہ ’حسب ارشاد‘ تھا۔ انھوں نے نہ صرف یہ کہ آئین شکنی کو قانونی جواز عطا فرما دیا بلکہ آمر مطلق کو آئین میں تحریف کا حق بھی دے دیا۔
جنرل مشرف کی آئین شکنی اور ان کا مارشل لا میری پیشہ ورانہ زندگی کا پہلا واقعہ تھا۔ یوں وہ واقعات جنھیں اب تک بزرگوں کی زبانی سنا تھا یا کتابوں میں پڑھ رکھا تھا، آنکھوں دیکھنا شروع کیا۔ یہی فیصلہ تھا جس کی مدد سے میں عدلیہ کے بارے میں کیپٹن حلیم صدیقی کے نظریے کو سمجھ پایا۔
اس کے بعد تو واقعات کا ایک طویل سلسلہ ہے۔ جسٹس سجاد علی شاہ کی محترمہ بے نظیر بھٹو شہید اور میاں محمد نواز شریف سے کشمکش شروع ہوئی تو مرحوم و مغفور سید سعود ساحر سے ایک جملہ سرزد ہوا۔ انھوں نے کہا تھا کہ پاکستان میں اب تک طاقت کے دو مراکز تھے لیکن اب ایک تکون وجود میں آ چکی ہے جس کا تیسرا ضلع عدلیہ ہے۔
شاہ صاحب مرحوم ہماری صحافت کے گل سرسبد تھے۔ مرحوم عبد القادر حسن مرحوم نے ان کے بارے میں کہا تھا کہ یہ ایسا شخص ہے جس کے گلے میں کالم بولتے ہیں۔ ان کی زبان سے نکلنے والا ہر جملہ معنی خیز، بلیغ اور اپنی نوعیت میں ایک مکمل کالم ہوتا۔ یہ جملہ تو کالم سے بھی بڑھ کر تھا۔ اسے کسی تحقیقی مقالے کی بنیاد ( Synopsis) قرار دیا جا سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:ایک عجب شہر کی مختلف خوشبو
اللہ بخشے، شاہ صاحب تو یہ بلیغ جملہ کہہ کر اپنے خالق کے پاس جا بسے، جہاں وہ یقیناً جنت کی بہاروں سے لطف اندوز ہو رہے ہوں گے، جب کہ ان کے خوشہ چین ان کی زبان سے ادا ہونے والی بے رحم حقیقت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ قبلہ شاہ صاحب یعنی سید سعود ساحر ہوں، جسٹس کارنیلئس ہوں، جسٹس کیانی یا ان جیسا کوئی بھی نیک نام منصف، یہ بات ان میں سے کسی ایک کے حاشیہ خیال میں بھی نہیں آئی ہوگی کہ ان کے دیس میں کبھی ایسا وقت بھی آئے گا جب فیصلوں کے نام پر آئین سازی شروع ہو جائے گی۔
ہمارے بزرگوں کی پرواز خیال یہاں تک پہنچی ہو یا نہ پہنچی ہو لیکن ہمارے عہد نے شاہ صاحب کے جملے کو الہامی ثابت کر دیا ہے۔ یہ باتیں تو ان دنوں ہمارے گناہگار کان کھلے بندوں سن رہے ہیں کہ پارلیمنٹ بالادست نہیں ہوتی، بالادستی تو کہیں اور ہے۔ کہیں اور کے لفظ سے ذہن کسی اور طرف نہ جائے کہ اب تلخ حقائق وہ نہیں رہے جن کا تجربہ ہمارے بزرگوں کو رہا ہے، بلکہ اب کچھ نئے حقائق بھی اپنی حقیقت طاقت کے زور پر منوا چکے ہیں۔ کیا یہ نئی حقیقت نہیں کہ تنازعات کے فیصلوں کے لیے آئین کو بنیاد بنانے کے بجائے ضمیر کا تصور پیش کیا جا رہا ہے۔
ضمیر کیا ہے؟ ضمیر ایک داخلی کیفیت ہے جو کسی انسان کے جذبات، تصورات اور اس کے ذہنی پس منظر سے وجود میں آتی ہے۔ یہ سائنسی حقیقت ہے اور نہ کوئی ایسا مظہر جسے کسی ملک کی پوری آبادی یا قوم تک توسیع دی جا سکے۔ کسی قوم کا نکتہ اتفاق کوئی طے شدہ نظریہ ہو سکتا ہے اور نظریہ بھی وہ جو کوئی تصدیق شدہ دستاویز ہو۔ ہمارے عہد کی سب سے بڑی سیاسی دستاویز آئین ہے۔ یہ عالم گیر تصور ہے، ہمارے سیاسی سماج کا کوئی خود ساختہ نظریہ نہیں۔
یہ بھی پڑھیں:مولانا مودودیؒ کا اصل کارنامہ
1400 سال قبل کی جانے والی بیعت رضوان کے موقعے پر مشرکین مکہ کے ساتھ معاہدہ ہو، مدینہ منورہ کے یہودیوں کے ساتھ کیا گیا میثاق ہو یا نجران کی مسیحی آبادی کے ساتھ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معاہدہ، ان تینوں دستاویزات نے اس دنیا کو کشت و خون اور ظلم و عدوان سے بچانے کے لیے تحریری آئین کی منزل تک پہنچایا۔ یوں بتا دیا کہ فیصلہ سازی ذہنی رجحانات، مفادات یا نام نہاد ضمیر کی بنیاد پر نہیں ہوتی بلکہ طے شدہ اصولوں کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ ایسا نہ ہو تو معاشرے بگاڑ کا شکار ہو جاتے ہیں۔
ہمارے کیس میں، شیطان کے کان بہرے ہیں، یہ روش ہمیں اپنے متفقہ آئین سے محروم بھی کر سکتی ہے۔ اس بگاڑ کی بدترین شکل خانہ جنگی ہے۔ پاکستانی سماج اس وقت جس کے دہانے پر جا پہنچا ہے۔ فریقین اپنے اپنے ہتھیار اٹھائے صف بندی کر چکے ہیں۔ گزشتہ 2-3 برس کے دوران میں تصادم کے جو واقعات رونما ہوئے ہیں یہ سب کچھ تباہ کر دینے والی خوف ناک جنگ سے پہلے کی جھڑپیں ہیں۔
ہماری سیاسی قیادت نے اس خطرے کی بو بہت پہلے سونگھ لی تھی۔ میثاق جمہوریت میں عدالتی اصلاحات پر اتفاق کیا گیا تو اس کی وجہ یہی تھی۔ کس آئینی ادارے میں تقرر اور ترقی کے معاملات اگر ان ہی لوگوں کے ہاتھ میں آ جائیں جن کا مفاد اس شعبے سے وابستہ ہو تو اس کے نتیجے میں ادارہ جاتی تصادم ناگزیر ہو جاتا ہے۔ یہ تصادم ہمارے سامنے ہے۔
یہ بھی پڑھیں:اسرائیل سے ملنے والی تازہ گواہی
اس مسئلے کی اصلاح کا بہترین وقت تو گزر چکا، یہ وقت بچے کچھے کو بچانے کا ہے۔ اس وقت جو لوگ ان اصلاحات کی اہمیت کو نہیں سمجھ رہے اور ان کی مخالفت کر رہے ہیں، وہ یا تو ریاست و سیاست کی مبادیات سے ناواقف ہیں یا پھر ملک اور قوم کا مفاد ان کے پیش نظر نہیں اور وہ گروہی انداز فکر رکھنے کے باوصف فریق مخالف کو تصادم کی اس آگ میں بھسم کرنے پر تلے ہوئے ہیں خواہ بعد میں خود انھیں بھی اس جہنم میں جلنا کیوں نہ پڑے۔