سینیٹ آف پاکستان نے تمام 22 شقوں کی باری باری منظوری کے بعد 26 ویں آئینی ترمیم کو دو تہائی اکثریت سے منظور کر لیا ہے، چیئرمین سینیٹ نے شق وار منظوری کے بعد آئینی ترمیم کے بل کی منظوری کے لیے ڈویژن کا عمل شروع کیا تو ’بل‘ کے حق میں 65 اور مخالفت میں 4 ووٹ آئے، جس کے بعد چیئرمین سینیٹ نے 26 ویں آئینی ترمیم کے بل کی دو تہائی اکثریت سے منظوری کا اعلان کیا۔
اس سے قبل ایوان بالا نے آئینی ترامیم پر ووٹنگ کی تحریک کثرت رائے منظور کی، جس کے بعد چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے ایوان کی گیلری کو خالی کرنے اوردروازے بند کرنے کی ہدایت کی۔
آئینی ترمیم کی شق وارمنظوری کے لیے ایوان بالا(سینیٹ ) کے دروازے بند ہوتے ہی حکومت اوراپوزیشن نے اپنی اپنی گنتی شروع کردی۔ پہلے انوشہ رحمان گنتی کرتی رہیں اور کاغذ پر لکھتی رہیں، پھر محسن نقوی اوراعظم نذیر تارڑ کھڑے ہو کراپنی گنتی پوری کرتے رہے۔
پی ٹی آئی کے سینیٹرعون عباس بھی گنتی کرتے رہے، انہوں نے کہا کہ آئینی ترمیم کی حمایت کرنے والے 62 ارکان موجود ہیں، حکومتی ارکان نے کہا کہ 3 آپ کے بھی ہیں ٹوٹل 65 ہیں۔
ایوان میں موجود 4 ارکان نے ووٹ نہیں دیا، پی ٹی آئی کے علی ظفر، عون عباس، حامد رضا، ناصرعباس نے ووٹ نہیں دیا، چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ میں ان 65 میں شامل نہیں ہوں۔
ایوان میں اپوزیشن کے چاروں سینیٹرزایوان کی کارروائی کا بائیکاٹ کر کے چلے گئے، اس دوران شق نمبر2 اور شق نمبر3 متفقہ طور پرمنظورکر لی گئیں، شق 4 اور 5 بھی اکثریتی ووٹوں کے ساتھ منظور کر لی گئی اس کے حق میں بھی 65 ووٹ آئے، کسی نے اس کے خلاف ووٹ نہیں دیا۔
وزیر قانون کی طرف سے پیش کی گئی 26 ویں آئینی ترمیم کی شق نمبر6 بھی ایوان بالا میں پیش کی گئی جس میں وزیرقانون نے ترمیم کی تجویز پیش کی جسے ترمیم کے ساتھ اکثریتی ووٹوں کے ساتھ منظور کر لیا گیا۔
اسی طرح ایوان بالا نے شق نمبر 7 ، 8 ، 9، 10، 11 اور 12 کو بھی اکثریتی ووٹوں کے ساتھ منظور کر لیا، ان کے حق میں 65 ووٹ آئے، مخالفت میں کوئی ووٹ نہیں پڑا۔
26 ویں آئینی ترمیم کی شق نمبر 13 میں وزیرقانون نے ترمیم کی تجویز پیش کی جسے ترمیم کے ساتھ کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا، اسی طرح شق نمبر 14 اور 15 کو بھی اکثریتی ووٹوں کے ساتھ منظور کر لیا گیا ان شقوں کے حق میں بھی 65 ووٹ پڑے اور مخالفت میں کوئی ووٹ نہیں پڑا۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے صوبوں کی نمائندگی سے متعلق آئینی ترمیم کی شق 16 میں بھی ترمیم پیش کی اور ترمیم کے ساتھ اسے بھی اکثریتی ووٹوں کے ساتھ منظورکر لیا گیا، اسی طرح شق نمبر 17 ، 18، 19، 20، 21 اور 22 کو بھی اکثریتی ووٹوں کے ساتھ منظورکر لیا گیا، ان شقوں کے حق میں بھی 65 ووٹ آئے، مخالفت میں کوئی ووٹ نہیں پڑا۔
اس طرح ایوان بالا نے 26 ویں آئینی ترمیم کی تمام 22 شقوں کی منظوری دے دی، جس کے بعد آئینی ترمیمی بل کی منظوری کے لیے چیئرمین سینیٹ نے ڈویژن کا عمل شروع کیا تو بل کی حمایت میں 65 اور مخالفت میں 4 ووٹ پڑے، اس طرح حکومت 26ویں آئینی ترمیم دو تہائی اکثریت کے ساتھ منظور کروانے میں کامیاب ہو گئی۔
1973 کے آئین کے مطابق ترمیم کے لیے شق وار منظوری میں ہر شق کے لیے دوتہائی اکثریت کا ہونا لازم ہے، ووٹنگ کے عمل کے دوران سینیٹ میں اتحادی حکومت کے سینیٹرز کے نمبرز اچانک 58 سے بڑھ کر 65 ہو گئے۔ اتحادی حکومت کے ووٹوں کی کل تعداد 58 تھی، تاہم بعد میں اس میں بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) مینگل کے 2، جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے 5 سینیٹرز کے ووٹ بھی شامل ہو گئے۔
ترمیم کی شق وار منظوری کے دوران پاکستان تحریک انصاف، سنی اتحاد کونسل اور ایم ڈبیلوایم کے ارکان ایوان سے بائیکاٹ کر کے چلے گئے، تاہم ڈویژن کے عمل کے دوران تمام اراکین واپس ایوان میں آ گئے۔
اس سے قبل وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد 26ویں آئینی ترمیم کا بل پاکستان کے ایوان بالا (سینیٹ ) میں منظوری کے لیے پیش کیا۔
اتوارکو 26 ویں آئینی ترمیم کے بل کا مسودہ وفاقی کابینہ سے منظور ہونے کے بعد وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے شام 5 بجے کے بعد چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں منظوری کے لیے پیش کیا۔
یہ بھی پڑھیں:26 ویں آئینی ترمیم میں کیا کچھ ہے؟
سینیٹ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے مسودے پر اتحادی اور اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ بھرپور مشاورت کی گئی ہے تاکہ اتفاق رائے پیدا کیا جا سکے۔ حکومت نے تمام جماعتوں کو آن بورڈ لیا ہے۔
Amendment Bill (2) by Iqbal Anjum on Scribd
انہوں نے کہا کہ 18 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تقرری کے طریقہ کار کو تبدیل کیا گیا تھا، اس کے بعد 19 ویں آئینی ترمیم اجلت میں کی گئی۔
وزیر قانون نے بتایا کہ کمیشن کی تشکیل میں متعلقہ فریق شامل ہوں گے جبکہ صدر اور وزیراعظم نے اپنا اختیار چھوڑ کر پارلیمان کو دے دیا، لیکن اسی دوران سپریم کورٹ میں 18ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواست دائر کر دی گئی جسے فوری سماعت کے لیے بھی منظور کرلیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ 18 ویں ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعتوں کے دوران یہ پیغام دیا گیا کہ اگرنظام میں توازن کو برقراررکھنے کے لیے اختیارات سپریم کورٹ کومنتقل نہیں کیے جائیں گے تو پھر یہ ترمیم منسوخ کردی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں:ہم نےمجموعی طور پرکالے سانپ کے دانت توڑ دیے، زہر نکال دیاہے، مولانا فضل الرحمان
وزیر قانون نے بتایا کہ یہ طرز عمل پارلیمان کی بالادستی اور آزادی پر عدم اعتماد اور کسی حملے سے کم نہیں تھا، جب ایسا ہوا تو 19ویں ترمیم کی گئی اور اس 19 ویں ترمیم میں جوڈیشل کمیشن کی کمپوزیشن کا جھکاؤ اعلیٰ عدلیہ کی طرف کردیا گیا اور پارلیمانی کمیٹی کے اختیارات میں بھی تبدیلی کردی گئی۔
وزیر قانون نے مزید بتایا کہ اس پر پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بارکونسل نے کئی مرتبہ یہ مطالبہ کیا اور کہا کہ اس سے زیادہ بہتر نظام تو وہ تھا جس میں ججز کی تقرری صدراور وزیراعظم کی ایڈوائس پر ہوتی تھی۔
انہوں نے کہا کہ اس ساری صورت حال کو سامنے رکھتے تجویز کیا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 175اے میں مناسب ترامیم کی جائیں اوراس کے بعد پچھلے 6 سے 8 ہفتوں میں بھرپور مشاورت اور ملاقاتوں کے بعد جو کمیشن بننے جا رہا ہے وہ آج اس بل کی صورت میں ایوان کے سامنے رکھا گیا ہے۔
مزید پڑھیں:آئینی ترمیم: مولانا فضل الرحمان سے ہوئی بات چیت پر عمران خان کو اعتماد ہے، بیرسٹرگوہر
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تقرری کے طریقہ کار کو 18 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے تبدیل کیا گیا اور اس میں پارلیمان نے بڑی محنت اور غور و خوض کے بعد ایک ایسا طریقہ کار متعارف کرایا جس میں یہ ممکن بنایا گیا کہ اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تقرری کو شفاف اور میرٹ کے مطابق کیا جائے۔
وزیر قانون نے ایوان بالا میں اظہار خیال کرتے ہوئے چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی سے درخواست کی کہ انہیں 26 ویں ترمیم کا مسودہ پیش کرنے کی اجازت دی جائے۔
انہوں نے چیئرمین سے درخواست کی کہ مجوزہ ترامیم کو ضمنی ایجنڈے کے طور پر ایوان میں پیش کیا جائے۔ انہوں نے ایوان کو بتایا کہ 18 ویں ترمیم میں ججوں کی تقرری کا طریقہ کار تبدیل کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مسودہ 26 نکات پر مشتمل اور متفقہ ہے۔ آئینی بینچز میں جہاں تک ممکن ہو سکا، تمام صوبوں کو نمائندگی دی جائے گی۔ صوبوں میں آئینی بینچز کا میکنزم بھی شامل کیا گیا ہے، جوڈیشل کمیشن کے حوالے سے اس میں شقیں شامل ہیں۔ جوڈیشل کمیشن کا سربراہ چیف جسٹس ہوگا۔
مزید پڑھیں: نمبرز پورے ہیں، اتفاق رائے نہ ہوا تو بھی آج آئینی ترمیم پر پیشرفت ہو جائے گی، خواجہ آصف کا دعویٰ
انہوں نے کہا کہ آئینی بینچ کم سے کم 5 ججز پر مشتمل ہو گا۔ نئی ترمیم کے مطابق چیف جسٹس کا تقرر خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی سفارش پر کیا جائے گا، چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن کم از کم 4 ججز پر مشتمل ہو گا۔ اس میں 2 ارکان اسمبلی اور2 ارکان سینیٹ، کمیشن کا حصہ ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ کوشش کی گئی ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی تقرری شفاف بنائی جائے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے لیے نئی آئینی ترمیم میں تجویز کیا گیا ہے کہ اس میں چیف جسٹس آف پاکستان، آئینی بینچ کی سربراہی کرنے والے ججز، سپریم کورٹ کے 3 سینیئر ترین جج، وفاقی وزیرقانون، اٹارنی جنرل آف پاکستان، کم ازکم 15 سال کے تجربے کا حامل وکیل جو پاکستان بار کونسل کا 2 سال کے لیے نامزد کردہ نمائندہ ہو، دونوں ایوانوں سے حکومت اوراپوزیشن کے2،2 ارکان کو کمیشن میں شامل کیا جائے گا اوراگرقومی اسمبلی تحلیل ہوگی توسینیٹ سے ہی حکومت اوراپوزیشن کے 2،2 ارکان کمیشن میں شامل کیے جائیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: آئینی ترمیم کا معاملہ: کیا مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی آئینی عدالتوں کے قیام سے پیچھے ہٹ گئیں؟
وفاقی وزیر قانون نے بتایا کہ صوبائی جوڈیشل کمشین کی شکل وہی رہے گی، جو نئی چیز شامل کی گئی وہ پرفارمنس ایوے لوایشن ہے۔ جوڈیشل کمیشن کے پاس اختیار ہوگا کہ وہ ہائیکورٹ کے ججز کی پرفارمنس دیکھے گا۔
وزیر قانون نے بتایا کہ ترمیمی مسودے میں اسپیکر قومی اسمبلی کو یہ اختیاردیا گیا ہے کہ وہ جوڈیشل کمیشن میں ٹیکنوکریٹ کی اہلیت پر پورا اترنے والے پارلیمنٹ سے باہر کی خاتون یا اقلیتی رکن کو نامزد کرسکیں گے۔
وزیرقانون نے کہا کہ ہائیکورٹ میں بینچ کے قیام کے لیے صوبائی اسمبلیوں کو اختیار دیا گیا ہے، صوبائی اسمبلی 51فیصد کے ساتھ پاس کرے گی تو وہاں بھی یہ نافذ العمل ہو جائےگا۔ وفاقی اور صوبائی سطح پر 5،5 ایڈوائزرز کی اجازت ہے، صوبائی ایڈوائز کے لیے بھی ترمیم کی جا رہی ہے، عدلیہ میں اصلاحات کے لیے مزید ترامیم کا مسودہ بھی آنے والے دنوں میں آئےگا۔
پارلیمانی خصوصی کمیٹی سپریم کورٹ کے 3 سینیئرترین ججزمیں سے کسی ایک کو چیف جسٹس آف پاکستان مقرر کرے گی۔ جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے 3 بار توسیع سے انکار کیا، وہ مدت ختم ہونے کے بعد چلے جائیں گے۔