آئینی ترمیم، سود کے خاتمے سے متعلق شق کثرت رائے سے منظور

اتوار 20 اکتوبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سینیٹ آف پاکستان نے کثرت رائے سے سود کے خاتمے کی شق منظور کرلی ہے، جس کے بعد سود کے خاتمے کی جانب ایک بڑی پیش رفت سامنے آئی ہے، تاہم وزیراطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ نے سود کے خاتمے سے متعلق شق کی حمایت میں پی ٹی آئی کی جانب سے ووٹ نہ دینے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:26 ویں آئینی ترمیم میں ’سودی نظام‘ کو تحفظ دینے کا انکشاف، سود کے مکمل خاتمے کے الفاظ حذف

واضح رہے کہ اس سے قبل پارلیمان کی خصوصی کمیٹی کی جانب سے منظور کردہ مسودے میں سود کے خاتمے کی شق پراعتراضات سامنے آئے تھے، جس میں سود کے مکمل خاتمے کی بات کو حذف کر دیا گیا تھا تاہم اس حوالے سے سامنے آنے والی تنقید اور تحفظات کے بعد حکومت نے سینیٹ آف پاکستان میں پیش کیے جانے والے ترمیمی بل کے مسودے میں اس شق میں پھر ترمیم کرتے ہوئے ’سود کے مکمل خاتمے کی شق منظور کر لی ہے۔

مزید پڑھیں:خصوصی کمیٹی میں منظور مسودے کے اہم نکات کیا ہیں؟

سینیٹ آف پاکستان سے 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر اپنے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’ سینیٹ نے پاکستان سے سود کے خاتمے کی قرارداد منظور کر لی ہے لیکن تحریک انصاف کے کسی سینیٹر نے قرارداد کے حق میں ووٹ نہیں دیا اور انہوں نے ایک مخصوص لابی کو خوش کرنے کی کوشش کی۔

اس سے قبل جماعت اسلامی کے سابق سینیٹرمشتاق احمد اور دیگر آئینی و قانونی ماہرین نے سود کے خاتمے کے حوالے سے آئینی ترامیم کے مسودے پرتحفظات کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں سیاسی جماعتوں، دینی تنظیموں، علمائے کرام اور عوام کو متوجہ کرتے ہوئے اپیل کی تھی کہ آئینی ترمیم میں سود کو تحفظ دیا جا رہا ہے اور یہ کسی صورت قابل قبول نہیں ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں:خصوصی کمیٹی میں منظور مسودے کے اہم نکات کیا ہیں؟

حکومت نے جمیعت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے تحفظات دور کرنے کے لیے سود کے متعلق تجاویز کو آئینی ترمیم کا حصہ بنایا تھا۔ اس سے قبل خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے منظور شدہ مسودے میں ترمیم کرتے ہوئے اب 26 ویں آئینی ترمیم کے حتمی مسودے میں آرٹیکل 38 میں ترمیم شامل کی گئی ہے، جس کے تحت یکم جنوری 2028 سے پاکستان کو مکمل طور پر سود سے پاک کر دیا جائے گا۔

جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کی تجویز پرآئین کے آرٹیکل 203 سی میں بھی ترمیم کی گئی ہے، جس میں (ہائی کورٹ) کے ساتھ وفاقی شرعی عدالت کا ذکر شامل کر دیا گیا ہے اور یہ بھی طے کیا گیا ہے کہ شرعی عدالت کا جج سپریم کورٹ کا جج بننے کا اہل ہوگا۔

مزید پڑھیں:پی ٹی آئی کے کون سے 2 سینیٹرآئینی ترمیم کی حمایت کر رہے ہیں؟ بیرسٹر گوہر نے بتا دیا

یہ آئینی ترامیم نہ صرف ملک میں اسلامی مالیاتی اصولوں اور نظام کے نفاذ کی جانب اہم قدم ہیں بلکہ جے یو آئی کے تحفظات کو دور کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوئیں۔

یہ اقدامات دینی اور سیاسی حلقوں میں انتہائی اہمیت کے حامل سمجھے جا رہے ہیں، کیونکہ ان کے ذریعے ملک کو سودی نظام سے نجات دلانے کا طویل انتظار اب ختم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp