قاتل پہاڑ ‘کے ٹو’ نے سدپارہ گاؤں کے درجنوں گھر اجاڑ دیے

پیر 21 اکتوبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان میں سدپارہ گاؤں کو کوہ پیماؤں کا گھر کہا جاتا ہے جہاں کے ہر گھر میں کم از کم ایک نہ ایک فرد کوہ پیمائی کے شعبے سے منسلک ہے۔

سدپارہ گاؤں نے پاکستان کو کئی ہیروز دیے جن میں نمایاں نام محمد علی سدپارہ، حسن سدپارہ، علی رضا سدپارہ، ایم مراد سدپارہ و دیگر شامل ہیں۔ ان کے علاوہ بہت سارے گمنام ہیروز کا تعلق بھی اسی گاؤں سے ہے۔

سدپارہ گاؤں کے ہر گھر میں پیدا ہونے والے بچے کوہ پیمائی کا جنون لے کر اس دنیا میں آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں پاکستان کا نام اگر کوہ پیمائی میں مشہور ہے تو وجہ بلتستان کے علاقہ سدپارہ گاؤں ہے۔

درجنوں کوہ پیماؤں اور بلند ترین پہاڑوں تک سفر کے دوران مدد فراہم کرنے والے پورٹر کا تعلق سدپارہ گاؤں سے ہی ہے۔ یہ شمالی پاکستان کے شہر اسکردو سے 10 کلومیٹر دور بلند پہاڑوں کے درمیان واقع ہے۔ سدپارہ گاؤں کے رہائشی طویل عرصے سے شمالی پاکستان میں غیر ملکی کوہ پیماؤں اور سیاحوں کی مدد کررہے ہیں۔

یہ علاقہ دنیا کے 3 سب سے اونچے پہاڑی سلسلوں ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش کے سنگم پر واقع ہے۔ پاکستان میں کوہ پیمائی اور سدپارہ گاؤں لازم و ملزوم سمجھے جاتے ہیں۔ یہاں ہر محلے میں پورٹر اور کوہ پیما موجود ہیں۔

گلگت بلتستان کے شہر اسکردو کے نواحی گاؤں سدپارہ کو اگر ہیروز کی جنم بھومی کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ سدپارہ وہ زرخیز گاؤں ہے جہاں سے ہر بار پاکستانی قوم کو ایک ایسا ہیرو ملا جس نے نہ صرف ملک کا نام روشن کیا بلکہ جب بھی موقع ملا یہاں سے تعلق رکھنے والے ہیروز نے دنیا کی بلند ترین چوٹیوں کو اپنے پیروں تلے روندتے ہوئے سبز ہلالی پرچم لہرایا۔

سدپارہ کے رہنے والے بنیادی طور پر پورٹر کا کام کرتے ہیں۔ پورٹر کوہ پیماؤں کا سامان لے کر ان کے ساتھ جاتے ہیں، پہاڑ پر راستے بھی تلاش کرتے ہیں اور ٹریک پر رسیاں بھی لگاتے ہیں۔ شکم کی آگ کو بجھانے کے لیے وزن کندھوں پر اٹھا کر خطرناک پہاڑوں میں سفر کرنا کوئی معمولی کام نہیں ہے اور یہ کام سدپارہ کے باسی ہنستے کھیلتے سرانجام دیتے ہیں۔

سدپارہ کا نام دنیا کے سامنے اس وقت آیا جب اس گاؤں سے تعلق رکھنے والے مرحوم کوہ پیما حسن سدپارہ نے بطور کوہ پیما کئی ریکارڈ اپنے نام کیے۔

حسن سدپارہ نے کوہ پیمائی کا آغاز 1994 میں کیا اور 5 سال بعد 1999 میں قاتل پہاڑ نانگا پربت کو سر کرکے پیشہ ور کوہ پیما بن گئے۔ حسن سدپارہ نے 2004 میں کے ٹو، 2006 میں گیشا بروم 1 اور گیشا بروم 2 کو سر کرلیا۔ اگلے سال 2007 میں براڈ پیک کو سرکرکے پاکستان میں واقع 8 ہزار میٹر سے بلند 5 چوٹیوں کو سر کرکے ہیرو بن گئے۔

قاتل پہاڑ کے ٹو سر کرنے کا جنون لے کر پیدا ہونے والے اس گاؤں کے درجن کے قریب لیجنڈز اب ہم میں نہیں رہے۔

سدپارہ ماونٹینیئرنگ کلب کے چیئرمین غلام محمد سدپارہ کہتے ہیں کہ سدپارہ گاؤں میں تقریباً 500 کے قریب کوہ پیما ہیں، جن میں سے 12 نامور کوہ پیماؤں اپنے اس شوق کو پورا کرنے اور ملک کا نام روشن کرنے کے لیے اپنی جانوں کا نظرانہ پیش کیا۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ اس شعبے میں زیادہ رجحان کی وجہ شوق بھی ہے جبکہ دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ اس فیلڈ میں کم وقت میں زیادہ پیسے ملتے ہیں۔

لیجنڈ کوہ پیما مرحوم محمد علی سدپارہ کے فرزند ساجد سدپارہ کا کہنا تھا کہ مجھے فخر ہے کہ میں پاکستان کے ہیرو محمد علی سدپارہ کا فرزند ہوں۔ میرے والد نے اپنی جان پاکستان کی خاطر قربان کردی اور میں بھی والد صاحب کے مشن کو لے کر اسی شعبے میں آگے بڑھ رہا ہوں۔

اسی گاؤں سے تعلق رکھنے لیجنڈ کوہ پیما حسن سدپارہ مرحوم کے فرزند عابد سدپارہ کا کہنا تھا جب والد صاحب حیات تھے تب ہماری زندگی بہت آسانی سے گزار رہی تھی، جب سے والد صاحب ہمیں چھوڑ کر گئے ہیں تب سے ہمیں گھر چلانے سمیت کوئی مسائل اور پریشانیوں کا سامنا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ والد صاحب کی ایک خواہش تھا کہ پاکستان میں ایک ریسکیو ٹیم ہو جو کوہ پیمائوں کو ریسکیو کریں، اس ریسکیو ٹیم کے نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کے بہت سارے ہیروز ہمیں چھوڑ کر چلے گئے اور والد صاحب کے اسی خواہش کو پورا کرنے کے لیے ہم نے ایک ریسکیو کمپنی شروع کی ہے جس نے پاکستان میں کوہ پیماؤں کو ریسکیو کرنے کا کام شروع کردیا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp