بلوچستان بار کونسل کے رہنما ایڈووکیٹ راحب بلیدی نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آئینی ترمیم کے ذریعے عدالتوں کے نظام کو ختم کردیا گیا ہے۔ حکومت من پسند جج لانا چاہتی ہے اور مرضی کے فیصلے کروانا چاہتی ہے۔ کل تک جو عدالتوں کی حیثیت تھی وہ برقرار نہیں رہی۔ اس آئینی ترمیم سے اگر حکومت کے خلاف کوئی درخواست دائر کرتے ہیں تو اس میں حکومت اپنی مرضی کے ججز کو مقرر کرے گی اور پھر ان ججز سے اپنی مرضی کے فیصلے کروائے جائیں گے۔ حکومت آنے والے چیف جسٹس کو پہلے سے ہی متنازع بنانا چاہ رہی ہے۔ جب تک معاشرے میں عدل کا نظام قائم نہیں ہوگا تب تک نا انصافی ہوتی رہے گی۔
راحب بلیدی نے کہا کہ جب آئینی ترمیم کا مسودہ تیار کیا جا رہا تھا تب مختلف شہروں میں موجود وکلا تنظیموں نے اس کے خلاف بڑے بڑے کنونشنز منعقد کیے جس کے بعد ایک وکلا ایکشن کمیٹی قائم کی گئی جو اس سارے معاملے کو دیکھ رہی ہے۔ ملک بھر میں موجود وکلا برادری اس آئینی ترمیم کو مسترد کرتی ہے۔
راحب بلیدی نے کہا کہ قاضی فائز عیسیٰ نے عدلیہ کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔ قاضی فائز عیسیٰ نے پورے عدالتی ڈھانچے کو تباہ کردیا۔ انہوں نے ایک پارٹی سے اس کا نشان چھین لیا، اس کے علاوہ مخصوص نشستوں کے معاملے پر بھی متنازعہ فیصلہ کیا۔ ایسی صورت میں یہ واضح ہو گیا ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے چیف جسٹس ہیں نہ کہ عوام کے۔ قاضی فائز عیسیٰ نے ذاتی انا کی خاطر پورے ادارے کی ساکھ کو ختم کردیا۔ وکلا برادری قاضی فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ کو یوم نجات کے دن کے طور پر منائے گی جبکہ بلوچستان کی تمام بارز میں ان کے داخلے پر پابندی ہوگی۔
راحب بلیدی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ترمیم کے خلاف وکلا نے تحریک کا آغاز کر دیا ہے۔ اس ضمن میں 26 اکتوبر کو ایک اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد کیا جائے گا جس میں آئندہ کے فیصلے کیے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ 2007 میں وکلا کی تحریک میں بہت سی سیاسی جماعتوں نے حصہ لیا۔ اگر اس تحریک میں بھی سیاسی جماعتیں شامل ہونے کی بات کریں گی تو انہیں منع نہیں کریں گے۔