ماہرہ خان کو بھارتی فلم رئیس میں شاہ رخ خان کے مدمقابل کاسٹ کیا گیا تھا۔ یہ فلم ماہرہ کی واحد بالی ووڈ فلم تھی کیوں کہ بعد میں ہندو انتہا پسندوں نے ان پر انڈسٹری میں کام کرنے پر پابندی لگوادی تھی اور انہیں متعدد دھمکیاں بھی موصول ہوئی تھیں۔
رئیس میں ماہرہ خان نے آسیہ کا کردار ادا کیا اور انہیں ان کی اداکاری پر خاصی داد بھی ملی۔
ماہرہ خان کو رئیس میں کاسٹ کرنے کے بارے میں کئی کہانیاں سامنے آ چکی ہیں جن کے بارے میں مختلف دعوے کیے گئے ہیں کہ اس کردار میں کس کس اداکارہ کو کاسٹ کیا جانا تھا۔
اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں فلم رئیس کے ہدایت کار راہول ڈھولکیا نے بالآخر انکشاف کر دیا کہ انہوں نے ماہرہ خان کو کیسے دریافت کیا اور وہ اس فلم کا حصہ بن گئیں تاہم ان کی وہ وضاحت سن کر کچھ ایسا تاثر ابھرا کہ گویا فلمسازوں نے مجبوری کا سودا کیا تھا اور اداکاری کی قابلیت وہ وجہ شاید نہیں تھی کہ جس کے باعث ماہرہ خان کا انتخاب کیا گیا۔
راہول نے دعویٰ کیا کہ وہ ایک ایسی لڑکی چاہتے تھے کہ جس کی عمر 30 سال سے زیادہ ہو اور وہ اچھی اردو بول سکے۔ انہوں نے بتایا کہ کرینہ کپور، دیپیکا پڈوکون اور کترینہ کیف جیسی ہیروئنیں تھیں جو دیکھنے میں معصوم نظر آتی تھیں لیکن وہ یا تو اتنا چھوٹا کردار کرنے کو تیار نہیں تھیں یا پھر زیادہ معاوضہ لینا چاہتی تھیں۔
راہول کی والدہ اور گوری خان کی والدہ نے ماہرہ کو دیکھا ہوا تھا اور انہوں نے مشورہ دیا کہ اس فلم میں ماہرہ کو کاسٹ کرلیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ پھر ماہرہ خان کا آڈیشن لیا گیا اور پتا چلا کہ یہی فلم رئیس کی وہ آسیہ ہے جس کی وہ تلاش میں تھے۔
شائقین نے اس راہول کی باتیں سننے کے بعد مختلف تبصرے کیے ہیں۔ْ کسی کا کہنا تھا کہ پتا نہیں ہدایت کار نے ماہرہ خان کی تعریف کی ہے یا بے عزتی۔ کسی نے کہا کہ اچھا تو دیگر اداکاراؤں نے رول معمولی ہونے اور پیسے کم ہونے کی وجہ سے کام سے انکار کیا اس پر ماہرہ کو چانس مل گیا تو کسی نے کہا کہ ٹھیک ہی ہے ماہرہ خان کو بہرحال بالی ووڈ میں ایک موقع ملا اور انہوں اس سے استفادہ کیا اور اداکاری بھی اچھی کی۔