رجسٹرار سپریم کورٹ آف پاکستان نے نئے چیف جسٹس کے تقرر کے لیے پارلیمانی کمیٹی کو 3 نام بھجوا دیے ہیں۔ پارلیمانی کمیٹی ان 3 ناموں میں سے ایک کے انتخاب کے بعد چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان کا انتخاب کرے گی۔ اس سے قبل ذرائع کے مطابق ججز سے متعلق معلومات اور ان کے فیصلوں سے متعلق معلومات بھی پارلیمانی کمیٹی کو بھجوائی گئی۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے موجودہ چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسٰی جمعہ 25 اکتوبر اپنے عہدے کی معیاد پوری کرکے ریٹائر ہو جائیں گے اور ان کے بعد سنیارٹی لسٹ میں پہلے نمبر پر جسٹس منصور علی شاہ، دوسرے پر جسٹس منیب اختر اور تیسرے نمبر پر جسٹس یحیٰی آفریدی ہیں۔
یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحیٰی آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ ایک ہی لا فرم میں شرکت دار رہ چکے ہیں اور ان تینوں نے مل کر 1997 میں ایک لاء فرم ’آفریدی، شاہ اینڈ من اللہ ‘ کی بنیاد رکھی تھی۔ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس یحیٰی آفریدی اس وقت چیف جسٹس کے عہدے کے امیدوار ہیں جبکہ جسٹس اطہر من اللہ اس وقت سنیارٹی لسٹ میں 8ویں نمبر پر ہیں۔
مزید پڑھیں:یحییٰ آفریدی کے چیف جسٹس بننے پر باقی ججز کیا کریں گے؟ خواجہ آصف نے بتا دیا
یہ بات بھی قابل ذکر ہو گی کہ جسٹس منصور علی شاہ کی بطور ایڈیشنل جج لاہور ہائیکورٹ تقرری کا نوٹیفیکیشن بھی صدر آصف علی زرداری نے جاری کیا تھا، اگر اب وہ چیف جسٹس بنتے ہیں تو بھی ان کا تقرر نامہ صدر زرداری ہی جاری کریں گے۔
26ویں آئینی ترمیم کے مطابق اگر 3 سینئر موسٹ ججز میں سے کوئی بھی چیف جسٹس بننے کے لیے آمادہ نہ ہو تو چوتھے نمبر پر موجود جج کا انتخاب کیا جائے گا۔ سنیارٹی لسٹ میں چوتھے نمبر پر اس وقت جسٹس امین الدین خان ہیں۔
چیف جسٹس کی تعیناتی اور 26ویں آئینی ترمیم کا مستقبل
قومی اسمبلی میں تعداد کے لحاظ سے سب سے بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف نے 26ویں آئینی ترمیم کی شدید مخالفت کی اور اس جماعت سے وابستہ وکلا اور دیگر وکلا بھی 26ویں آئینی ترمیم کی مخالفت کر رہے ہیں اور ان کے مطابق اس ترمیم سے عدالتی ساخت کو نقصان پہنچا ہے۔
مزید پڑھیں:سینیئر ترین جج کو چیف جسٹس نہ بنایا گیا تو ہم ایک بار پھر سڑکوں پر ہوں گے، علی امین گنڈاپور
گزشتہ روز سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی سے وابستہ نمایاں وکلا سردار لطیف کھوسہ اور حامد خان ایڈووکیٹ نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ 26ویں آئینی ترمیم کو عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے اس پر کوئی ممانعت نہیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے موجودہ صدر ریاست علی آزاد کا بھی یہ کہنا تھا کہ چونکہ اس ترمیم میں آرٹیکل 175 میں ترمیم نہیں کی گئی اس لیے اس ترمیم کو چیلنج کیا جا سکتا ہے۔
26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری سے قبل سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر عابد زبیری نے اس ترمیم کو چیلنج کیا تھا لیکن سماعت کے روز انہوں نے درخواست واپس لے لی۔ آج آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد ایک درخواست گزار نے اس ترمیم کو چیلنج کیا ہے۔ نئے چیف جسٹس کی تقرری کے بعد اگر یہ درخواست اور اس نوعیت کی دیگر درخواستیں سماعت کے لیے مقرر ہوتی ہیں تو اس کا انحصار سپریم کورٹ پر ہوگا کہ وہ ان درخواستوں سے متعلق کیا فیصلہ کرتی ہے۔