کنٹرولڈ جمہوریت کے بعد کنٹرولڈ عدلیہ قبول نہیں، وکلا رہنماؤں کی پریس کانفرنس

منگل 22 اکتوبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

وکلا رہنماؤں نے کہا ہے کہ چیف جسٹس کی تعیناتی کے لیے سنیارٹی پراسس کو بائی پاس کرکے پک اینڈ چوز کا معاملہ بنا دیا گیا، ہمیں کنٹرولڈ جمہوریت کے بعد کنٹرولڈ عدلیہ قبول نہیں ہے، آئینی ترمیم واپس کی جائے۔

سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن منیر اے ملک، وائس چیئرمین سندھ بار کونسل کاشف حنیف، ممبر سندھ بار کونسل حیدر امام رضوی، نائب صدر سندھ ہائیکورٹ بار زبیر ابڑو، صدر کراچی بار عامر وڑائچ نے کراچی پریس کلب میں مشترکہ پریس کانفرنس کی۔

یہ بھی پڑھیں: 26 ویں آئینی ترمیم پر وکلا کیا سوچ رہے ہیں؟

پریس کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے صدر کراچی بار عامر وڑائچ نے کہا کہ 26 آئینی ترمیم سے وکلا مطمئن نہیں ہیں، وکلا اس ترمیم کی مزمت کرتے ہیں، چیف جسٹس کی تعیناتی کے لیے سنیارٹی پراسس کو بائی پاس کرکے پک اینڈ چوز کا معاملہ بنا دیا گیا ہے،پارلیمنٹ کی مداخلت آزاد عدلیہ کے حق میں نہیں ہے۔

عامر وڑائچ نے کہا کہ آئینی بینچ کی تشکیل پارلیمنٹ کے زیر اثر جوڈیشل کمیشن کو اختیار دیا گیا ہے، رات کی تاریکی میں ترمیم کو منظور کرنا ظاہر کرتا ہے یہ بل اچھا نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے قاضی فائز عیسی سے درخواست کی تھی کہ وہ اس عمل میں شامل نا ہوں، ہمارا مطالبہ ہے کہ آئینی ترمیم واپس کی جائے، عدلیہ پر شب خون مارنے یا زیر اثر لانے کی کوشش کو قبول نہیں کریں گے، ہم ملک میں تحریک چلانے کے لیے بھی تیار ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم ایسی کوئی ترمیم کو قبول نہیں کریں گے، عدلیہ کی آزادی کو کنٹرول کرنے کی کوشش ختم نہیں ہوتی ہماری لڑائی جاری رہے گی۔

یہ بھی پڑھیں: حامد خان کا ملک گیر وکلا تحریک چلانے کا اعلان

‎انہون نے کہا کہ 2007 میں بھی سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے وکلا ہمارے ساتھ تھے، وکلا کسی بھی جماعت میں ہوں پہلی ترجیح کالا کوٹ ہوگا، وکلا کلیئر ہیں کہ ترمیم سے سپریم کورٹ کو مجسٹریٹ بنا دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئینی عدالت کو آئینی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا، ہوسکتا ہے ہمارے کچھ دوستوں کے کچھ تحفظات ہوں، پارلیمنٹ کو قانون سازی سے کوئی منع نہیں کررہا ہے، ترمیم کے بعد کوئی اپنے حقوق کی بات نہیں کرسکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ ترمیم لانے والے بھی اس سے متاثر ہوں گے، پارلیمنٹ نے قانون سازی کے لیے رائج طریقہ کار فالو نہیں کیا تو اسکی کیا حیثیت ہوگی۔

’آئینی بینچز کو کوئی بھی نام دیں وہ الگ عدالت ہی ہے‘

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ بار کے سابق صدر منیر اے ملک نے کہا کہ عدلیہ پہلے بھی آزاد نہیں تھی، آئینی بینچز کو کوئی بھی نام دیں وہ الگ عدالت ہی ہے، سپریم کورٹ میں اب یہ تنازعہ ہے کہ کونسا کیس ریگولر عدالت میں جائے گا اور کونسا آئینی عدالت میں، سپریم میں ایسے کم ہی کیس ہوتے ہیں جس میں آئینی پہلو نا ہو۔

انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 4،9 ہر درخواست میں ہوتے ہیں، فوجداری اور سول اپیل کے علاوہ تمام کیسز آئینی عدالت منتقل ہوجائیں گے، اگر زیر التوا کیسز کو کم کرنا مقصود تھا تو یہ بینچ کس طرح کیس ختم کرے گا۔

منیر اے ملک نے کہا کہ بار نے ججز تعیناتی یا ریفارمز پر کبھی اعتراض نہیں کیا، بار کا موقف ہمیشہ یہی ہے کہ پرچی پر کوئی نہ آئے، کنٹرولڈ جمہوریت کے بعد کنٹرولڈ عدلیہ ہمیں قبول نہیں،بار نے ہمیشہ کالے قوانین کے خلاف جدوجہد کی ہے، کہا جارہا ہے ناگ کا زہر نکال دیا گیا ہے، یہ ناگ عدلیہ کے گلا گھونٹ رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مجوزہ آئینی ترمیم، کون سی وکلا تنظیم حق میں اور کون مخالف؟

انہوں نے کہا کہ ریٹائرڈ ججز بھی اس جدوجہد میں سامنے آئیں،خوشی ہے کراچی بار یا سندھ بار کونسل تاریخی کردار ادا کررہے ہیں، ہماری جدوجہد عدالتوں میں بھی ہوگی اور سڑکوں ہر بھی ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ ‎2007 میں ہم سپریم کورٹ میں مقدمہ بھی لڑ رہے تھے اور سڑکوں پر بھی تھے، ترمیم بنانے میں طریقہ کار کی غلطی ہے تو ریگولر سپریم کورٹ دیکھ سکتا ہے، اس وقت آئین کی تشریح کا مسئلہ نہیں ہے،پہلا چیلنج طریقہ کار کی غلطی کو ٹھیک کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئین کے بنیادی ڈھانچے کو تبدیل کرنے والی ترمیم کو سپریم کورٹ دیکھ سکتا ہے، جو بھی چیف ہوگا اس کی عدالت میں جائیں گے۔

منیر اے ملک نے کہا کہ کبھی دعویٰ نہیں کیا کہ اعلی عدالتیں فرشتہ ہیں، سپریم کورٹ میں ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے عدلیہ کے اختیارات سے تجاوز کی بات کی،امید ہے جدوجہد تیز ہوگی تو عدلیہ میں بھی یہ احساس پیدا ہوگا۔

’ترمیم نے آئین کا بنیادی ڈھانچہ تبدیل کردیا

وکیل رہنما زبیر ابڑو نے کہا کہ آئینی ترمیم نے آئین کا بنیادی ڈھانچہ تبدیل کردیا ہے، وکلا آزاد عدلیہ کے خلاف ایسے کسی عمل کی تائید نہیں کریں گے، جو بھی لائحہ عمل طے ہوگا تمام بار ایسوسی ایشنز عمل کریں گی۔

جو چہرہ 2007 میں عدلیہ کو ماتحت بنانے کے لیے سامنے تھا آج وہ پس پردہ موجود‘

حیدر امام رضوی نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم کے لیے طویل بحث و مباحثہ کیا گیا، ہم نے اٹھارہویں ترمیم کو خوش آمدید کہا، صوبائی خودمختاری کو ختم کرنے کے خلاف وکلا نے پارلیمنٹ کو سپورٹ کیا، جو چہرہ 2007 میں عدلیہ کو ماتحت بنانے کے لیے سامنے تھا آج وہ پس پردہ موجود ہے۔

انہوں نے کہا کہ ترمیم کے لیے سیاسی قیادت بہت بے چین تھی، پچھلے 15 روز ملک میں ترمیم کے علاوہ کوئی کام نہیں کیا گیا، مولانا فضل الرحمان کہتے ہیں اگر وہ شامل نا ہوتے تو پہلا مسودہ منظور ہوتا، سب جانتے ہیں سینیٹ اور ہارلیمنٹ میں کیسے اکثریت حاصل کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: مجوزہ آئینی ترمیم کا ساتھ دینے والوں پر آرٹیکل 6 لگنا چاہیے، وکلا کنونشن میں جوڈیشل پیکج کے خلاف قرارداد منظور

ان کا کہنا تھا کہ 26ویں ترمیم کو 26 دن بھی نہیں دیے گئے، یہ عدلیہ اور آئین پر نہیں عوام پر حملہ ہے، جیسے پارلیمنٹ سے عوام کو امید ختم ہوئیں اب عدلیہ سے بھی ختم  ہوجائیں گی۔

انہوں نے کہا کہ کمزور عدلیہ کے ساتھ بیٹھے  ہیں، ہم ہر فورم پر اس کو چیلنج کریں گے، سب کو ایک ساتھ جمع ہونا ہوگا، قاضی فائز عیسی پر برا وقت آیا وکلا برادری نے ہر کوشش ناکام بنائی، ترمیم کی تمام غیر قانونی شقیں ختم کرنی ہوں گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp