ماحولیاتی مہاجر: حکومتیں بدل جاتی ہیں مگر ہمارے حالات نہیں بدلتے

منگل 22 اکتوبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کا شمار موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں ہوتا ہے۔ ان تبدیلیوں سے یوں تو قدرتی آفات، سیلاب، درجہ حرارت میں اضافہ اور پینے کے صاف پانی کی کم یابی جیسے مسائل سامنے آتے ہیں جو آبادی کے ایک بڑے حصے کو متاثر کرتے ہیں۔ لیکن یہ مسائل برابر تمام طبقات کو متاثر نہیں کرتے بلکہ سب سے زیادہ نقصان معاشرے کے غیر ترقی یافتہ طبقے کو اٹھانا پڑتا ہے جن میں مذہبی اقلیتیں سر فہرست ہیں۔ کیونکہ ان کے ہاں وسائل اور ترقی کے مواقعوں کی شدید کمی ہے۔

ملکی اقلیتیں جو کُل آبادی کا ساڑھے 3 فیصد ہیں ان مسائل کا سب سے زیادہ نشانہ اس لیے بنتی ہیں کیونکہ ان کا بڑا حصہ خط غربت کی لکیر سے نیچے کی زندگی گزار رہا ہے۔ اسلام آباد جو ترقیاتی منصوبوں کے اعتبار سے پاکستان کا جدید ترین شہر ہے، یہاں 15 کے قریب کچی آبادیاں قائم ہیں۔ ان کچی آبادیوں کے مکین زیادہ تر مسیحی کمیونٹی سے ہیں جو سخت موسم، صاف پانی، گندگی اور بارشوں میں پانی کھڑا ہونے سے مختلف مسائل کا شکار رہتے ہیں۔

اس حوالے سے اقلیتی کمیونٹی کے سرکردہ رہنما اور سابق وفاقی وزیر جے سالک نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ موسمیاتی تبدیلیاں ویسے تو نچلے طبقے کو سب سے زیادہ متاثر کرتی ہیں۔ مگر اقلیتی مذہبی کمیونٹی کے زیادہ تر لوگ چونکہ نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے وہ بھی ان مسائل کا سب سے زیادہ نشانہ بنتےہیں۔ 30 سال قبل اس وقت کی وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے جن کچی آبادیوں کو مالکانہ حقوق دئیے تھے اس کے بعد آج تک مزید کسی کو کچھ نہیں ملا۔ سیکٹر جی 8/1 میں کچھ حصے پر جے سالک کالونی کے نام سے ایک ماڈل بستی بسائی گئی تھی لیکن وہ بھی آج تک مکمل نہیں ہو سکی۔ جبکہ باقی کچی آبادیوں کو تو کسی نے پوچھا تک نہیں۔

انتخابات سے پہلے سیاستدان نظر آتے ہیں:

لاٹھی کے سہارے چلنے والے ارشد مسیح کو اسلام آباد میں رہتے ہوئے 4 دہائیاں بیت چکی ہیں۔ ان سے ہماری پہلی ملاقات الیکشن 2024کے روز یعنی 8 فروری کو ہوئی تھی۔ اس دن اپنی برادری کے دیگر لوگوں کے ہمراہ وہ بھی پولنگ اسٹیشن پر ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے آئے ہوئے تھے۔ ہمارے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ سبھی سیاسی جماعتوں کے اُمیدواران نے ووٹ مانگنے کے لیے کچی آبادیوں کا رُخ کیا تھا، لیکن یہ نمائندے انتخابات کے پہلے ہی ہمارا حال احوال دریافت کرتے ہیں۔ ان کی کمیونٹی کے زیادہ تر لوگ شہر کی صفائی ستھرائی میں دن رات ایک کر دیتے ہیں لیکن ان کے اپنے علاقے میں کچرے کے ڈھیر ہیں۔

اسی طرح نالے کے گرد قائم گھروں میں گندے پانی سے پھیلنے والی بیماریوں کا بھی کوئی مستقل حل نہیں کیا جاتا اور نہ ہی انہیں پینے کا صاف پانی میسر ہے۔ انتخابات کے تقریباً 8 ماہ بعد جب ہم ارشد مسیح کو دوبارہ تلاش کرتے ہوئے اسلا م آباد کے سیکٹر جی سیون کی کچی آبادی میں پہنچے تو پتا چلا کہ وہ ڈینگی بخار میں مبتلا ہیں۔ ان کے علاقے میں مچھروں کی بہتات ہے اور صحت و صفائی سے متعلق اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ گو کہ ڈینگی مچھر ٹھہرے ہوئے صاف پانی میں افزائش پاتا ہے، لیکن صفائی کے ناقص اقدامات اور شدید گرمی میں پینے کے پانی کی قلت یہاں صحت کے مسائل میں اضافہ کرتی ہے۔ محکمہ صحت کے مطابق رواں برس میں اب تک اسلام آباد سے ڈھائی ہزار کے قریب ڈینگی کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ یاد رہے کہ گزشتہ برس عالمی ادارہ صحت کی طرف سے جاری کی گئی وارننگ میں بتایا گیا تھا کہ گلوبل وارمنگ کے سبب ڈینگی بخار میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

اسی کچی آبادی میں ہماری ملاقا ت رامس مسیح سے بھی ہوئی، ان کے والدین بھی 4 دہائیوں پہلے اسی آبادی میں آئے تھے۔ ان کے مطابق اس کمیونٹی کے حالات میں رفتہ رفتہ بہتری آئی ہے، ‘پہلے بارشوں میں ان کا گھروں میں نالے کا پانی چڑھ آتا تھا لیکن اب سی ڈی اے نے اسلام آباد کے نالوں کی صفائی کر کے ان کے کناروں پر پتھروں کی دیوار بنوا دی ہے۔ جس کے بعد حالیہ مون سون میں نالوں کا پانی گھروں میں داخل نہیں ہوا’۔

ارشد مسیح کے بقول انتخابات کے بعد سے اب تک کسی سیاسی نمائندے نے ان کے علاقے کا رخ نہیں کیا۔ جب ان سےحکومتی اقدامات کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے کہا ‘حکومتیں بدل جاتی ہیں لیکن ہمارےحالات نہیں بدلتے۔ ‘

تھر کی ورشہ دیوی کی پریشانی

صحرائے تھر کی ورشہ دیوی کا تعلق ہندو برادری سے ہے، جو پہلے ہی مذہبی اور سماجی امتیاز کا شکار ہے۔ ورشہ نے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اس مرتبہ پڑنے والی شدید گرمی نے ان کی فصلوں کوشدید نقصان پہنچایا تھا جب کہ ان کے جانور بھی مختلف بیماریوں کا شکار رہے ہین۔ جس کے سبب انہیں خوراک کی قلت اور معاشی مشکلات کا سامنا ہے۔ ورشہ بتاتی ہیں کہ، اس سے پہلے، ہم اندازہ لگا سکتے تھے کہ بارشیں کب ہوں گی، اور ہم اس کے ارد گرد اپنی کاشتکاری کا منصوبہ بنایا کرتے تھے۔ لیکن اب یہ جاننا ناممکن ہے۔ پہلے شدید خشک سالی پیداوار نہیں ہونے دیتی اور پھر بے وقت کی بارشیں انہیں تباہ کردیتے ہیں۔ ایک بار فصل خراب ہوجائے تو ہمارے پاس اگلی بار اسے شروع کرنے کے لیے وسائل نہیں رہتے۔

تھر میں ہندو برادری کا زیادہ تر انحصار زراعت یا گلہ بانی پر ہے، انہیں آبپاشی کے جدید نظام یا خشک سالی سے بچنے والی فصلوں تک رسائی حاصل نہیں ہے، جس کی وجہ سے وہ موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے انتہائی خطرے سے دوچار ہیں۔ ورشہ نے مزید کہا کہ “ہم خود کو لاوارث محسوس کرتے ہیں۔ ‘جب آفت آتی ہے تو ہمیں اپنے علاقے میں ویسی امدادی کوششیں نظر نہیں آتیں جیسی دوسری جگہوں میں دیکھی گئی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم حکومت کی نظروں سےپوشیدہ ہیں۔

موسمیاتی تبدیلی نقل مکانی پر مجبور کرتی ہے:

اس حوالے سے ہم نے تھر سے تعلق رکھنے والے صحافی ساترم سنگی سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ موسمیاتی تبدیلیاں سندھ میں مقیم اقلیتی برادری کو مختلف انداز میں متاثر کر رہی ہیں۔ مثلاًجو لوگ بارانی علاقوں میں رہتے ہیں انہیں بارشوں کے پیٹرن میں تبدیلی کے سبب فصلوں کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ لیکن اگر کسی کے پاس سو پچاس جانور ہیں یا وہ کسی باڑے پر کام کر رہا ہے اور خشک سالی آگئی ہے تو انہیں اس علاقے سے نقل مکانی پڑتی ہے۔ تھرپارکر سے لوگ بدین، ٹھٹھہ، سانگھڑ، میرپور خاص یا حیدرآباد کی طرف جاتے ہیں اور اپنا علاقہ چھوڑنے کے سبب انہیں ہر چیز خریدنا پڑتی ہے، جس میں جانوروں کا چارہ سب سے مہنگا پڑتا ہے۔ جب کہ بارانی علاقوں میں قیام کا بھی مسئلہ پیش آتا ہے کہ اتنے جانوروں کو کہاں ٹھہرایا جائے۔ کیونکہ زرعی علاقوں میں خالی زمینیں تو ملتی نہیں۔

حکومتی اقدامات سے متعلق انہوں نےبتایا کہ حکومت نے سروے کر کے خط غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کو مالکانہ حقوق کے ساتھ زمینیں دینے کا اعلان کیاتھا لیکن اول تو جس طریقے سے یہ تقسیم ہوئی اس عمل کی شفافیت پر سوالات موجود ہیں۔ ساتھ ہی یہ زمینیں اتنی تعداد میں نہیں ہیں جو لینے والوں کے حالات زندگی بدل سکیں۔ گزشتہ برسوں میں یہاں صرف اتنی جدت آئی ہے کہ کسی ادارے نے کہیں ہینڈ پمپ لگا کر دے دیا تو لوگوں کو کنویں سے پانی نکالنے میں سہولت ہو جاتی ہے۔

موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے مسائل پر نظر رکھنے والے ماہر محمد توحید کہتے ہیں کہ یہ صرف اندرون سندھ کا مسئلہ نہیں بلکہ کراچی سمیت ملک بھر میں یہی حالات ہیں۔ آج تک یہ ہوتا آیا ہے کہ سینٹری اور صفائی ستھرائی سےمتعلقہ شعبوں کے لیے نوکری کا اشتہار دیا جاتا تھا تو اس میں یہ واضح لکھا ہوتا تھا کہ یہ صرف مذہبی اقلیتوں کے لیے مخصوص ہیں۔ سول سوسائٹی کے مسلسل احتجاج پر اب یہ مذہبی بنیادوں پر برتا جانے والا امتیازی سلوک اشتہار کی حد تک تو ختم ہو گیاہے لیکن معاشرے میں یہ لوگ اب بھی انتہائی غربت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اب جہاں وسائل کچن کے اخراجات پورا کرنے کے لیے ناکافی ہوں تو وہ سخت موسم، ہیٹ ویو یا سیلاب سے کیسے نمٹیں گے؟

موسمیاتی تبدیلیاں اور حکومتی اقدامات:

موجودہ حکومتی جماعتوں نے انتخابات سے قبل اپنے منشور میں موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے بلند و بانگ دعوے کیے تھے جن میں ہر شہری کے لیے صاف آب و ہوا سے لے کر سرکاری دفاتر کو ماحول دوست بنانے تک کے اقدامات شامل تھے۔ منشور سے آگے بڑھ کر اگر ہم اقدامات کی بات کریں تو رواں مالی سال کے بجٹ میں وفاقی حکومت نے موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے 6 اعشاریہ 25 ارب روپے مختص کیے تھے جن میں گزشتہ مالی سال کے 4 ارب کے مقابلے میں یقیناً اضافہ دیکھا گیا ہے۔ ملکی بجٹ میں وفاقی حکومت نے اس مرتبہ 53 ارب روپے کے پراجیکٹس کو موسمیاتی تبدیلیاں سے موافقت پیدا کرنے کا ٹیگ بھی دیا ہے، جبکہ 225 ارب روپے کے پراجیکٹس سے متعلق کہا گیا ہے کہ ان سے موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کم کرنے میں مدد ملے گی۔

اس حوالے سے جب ہم نے موسمیاتی تبدیلیوں کے ماہر محمد توحید سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ مسئلہ بجٹ مختص کرنے کا نہیں بلکہ اس کے استعمال کا ہے جو کہ ہم مالی سال کے اختتام پر ہی دیکھ سکتے ہیں۔ گزشتہ برسوں میں یہ رویہ بہت تسلسل سے دیکھنے میں آیا ہے کہ بجٹ استعداد سے کہیں زیادہ رکھا جاتا ہے لیکن اسے ریلیز نہیں کیا جاتا۔ بلکہ مالی سال کے دوران اسے دیگر پراجیکٹس کی مد میں لگا دیا جاتا ہے۔ ان کے بقول ‘حکومتی سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ پورے کراچی میں سرکاری سطح پر ایک بھی ائیر کوالٹی مانیٹر نہیں لگایا گیا’ تاکہ نہ کبھی شہر کے ماحول کا آفیشل ڈیٹا میسر ہوگا نہ ہی اس پر بات ہوگی’۔ لاہور میں عدالتوں کی مداخلت کے سبب اس حوالے سے اقدمات اٹھائے گئے ہیں لیکن سارے ملک کی صورتحال دیکھیں تو سرکاری اقدامات زیادہ تر کاغذوں کی حد تک ہی نظر آتے ہیں۔

حالیہ بجٹ اور موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے اقدامات پر ہم نے وزیراعظم کی فوکل پرسن برائے موسمیاتی تبدیلی سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تھی لیکن تاحال ان کا جواب موصول نہیں ہوا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp