میری ذاتی رائے میں سینیئر موسٹ جج ہی کو چیف جسٹس بننا چاہیے اور الجہاد کیس کے فیصلے کو تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ فیصلہ مگر اب ہوچکا۔ آئینی ترمیم ہوگئی اور اگلے کئی برسوں تک یہ ترمیم پارلیمنٹ کے ذریعے تو ختم نہیں ہوسکتی جبکہ جوڈیشل ریویو کا امکان تو پہلے ہی ختم ہوچکا۔ اس لیے اب اس سے آگے بڑھنا چاہیے۔ اس ایشو سے جڑے چند سوالات پر نظر ڈالتے ہیں۔
نئے چیف جسٹس، ماضی، حال اور مستقبل
لوگوں کی دلچسپی نئے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی شخصیت میں ہے کہ ان کا جیورس پروڈونس (اصول قانون) کیا ہے، ان کے ماضی کا طرزعمل کیا رہا اور وہ کیا کرسکتے ہیں؟
جسٹس یحییٰ آفریدی کا تعلق ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے۔ خیبر پختوںخوا کا وہ شہر جو دیگر شہروں سے نسبتاً زیادہ پسماندہ رہ گیا اور دہشتگردی کی جنگ سے بھی زیادہ متاثر ہوا۔
ڈی آئی خان سے تعلق رکھنے والے ایک اور جج بھی مشہور ہوئے تھے اور انہیں ایک خاص حوالے سے گلوریفائی کیا جاتا ہے۔ وہ جسٹس غلام صفدر شاہ تھے، ان 3 ججوں میں سے ایک جنہوں نے بھٹو صاحب کو بری کیا۔
جسٹس صفدر شاہ بڑے دبنگ جج تھے، انہوں نے جرأت مندانہ فیصلہ کیا اور پھر اس کے بعد بی بی سی کے صحافی مارک ٹلی کو یہ بھی کہہ دیا کہ نظرثانی میں جن ججوں نے بھٹو کو سزا سنائی، وہ بھی اپنی رائے بدل سکتے ہیں۔ اس بیان پر مارشل لا حکومت میں سنسنی پھیل گئی اور جسٹس غلام صفدر شاہ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں کیس بھیجا گیا۔ جسٹس غلام کو یوں نشانہ بنایا گیا کہ انہیں بڑی مشکل سے افغانستان کے راستے ملک سے باہر جانا پڑا۔ زندگی کے باقی ماندہ سال انہوں نے لندن میں جلاوطنی کی حالت میں گزارے۔ کم لوگ جانتے ہوں گے کہ جسٹس اطہر من اللہ انہی جسٹس غلام صفدر شاہ کے داماد ہیں۔
ڈی آئی خان کے ایک اور جج کو اب چیف جسٹس جیسا بڑا منصب ملا ہے، تاہم جسٹس آفریدی کی تعلیم لاہور، پنجاب میں ہوئی۔ ایچی سن کالج، گورنمنٹ کالج اور پنجاب یونیورسٹی کے بعد انہیں کیمبرج یونیورسٹی سے ایل ایل ایم کا موقع بھی ملا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی سے متعلق عدالتی اور وکلا برادری میں 2 باتیں مشہور ہیں۔ وہ ایک من موجی، اپنی مرضی سے رائے بنانے والے جج کی شہرت رکھتے ہیں، جس پر کوئی دوسرا اثرانداز نہیں ہوسکتا۔ وہ بعض فیصلوں میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بھی گئے اور کھل کر اپنی رائے دی۔ چند ایک فیصلوں میں ان کی رائے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے حق میں بھی رہی۔ یعنی جسٹس آفریدی پر کوئی چھاپ نہیں لگائی جاسکتی۔ وہ بہت ہی Unpredictable جج ہیں، جن کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔
جسٹس آفریدی نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس میں پہلے اپنی ایک منفرد رائے بنائی، ریفرنس بھی خارج کیا، مگر جسٹس قاضی فائز کے خلاف فیصلہ بھی دیا۔ تاہم نظرثانی میں جسٹس آفریدی نے اپنی رائے تبدیل کی اور قاضی فائز عیسیٰ کے حق میں فیصلہ کیا، انہی کی وجہ سے قاضی صاحب بری ہوپائے۔ یاد رہے کہ تب وہ فیصلہ جنرل فیض حمید کے خلاف تصور کیا گیا اور اسی نظرثانی کیس میں جسٹس منیب فیض حمید کی سائیڈ پر تھے یعنی پرو اسٹیبلشمنٹ۔ پچھلے سال کے کورٹ اینڈ پروسیجر ایکٹ میں بھی جسٹس آفریدی کی رائے منفرد تھی، وہ قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ نہیں گئے۔
سب سے اہم یہ کہ ملٹری کورٹس میں سویلین کے ٹرائل والے کیس میں جسٹس آفریدی نے ملٹری کورٹس کے خلاف فیصلہ سنایا، وہ جسٹس منیب اختر، جسٹس عائشہ ملک وغیرہ کے ساتھ گئے، تاہم جسٹس آفریدی نے ایک نکتہ پر اختلاف کیا۔ انہوں نے اس قانون کو کالعدم قرار نہیں دیا۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جسٹس آفریدی کو پارلیمانی کمیٹی نے چیف جسٹس بنایا ہے، مگر انہیں پرو اسٹیبلشمنٹ جج ہرگز نہیں کہا جاسکتا۔ ان پر درحقیقت کوئی لیبل لگانا شاید آسان نہیں۔ البتہ ان کے ناقدین یہ الزام ضرور لگاتے ہیں کہ بعض اوقات وہ بوجھ اٹھانے سے گریز کرتے ہیں اور کئی کیسز میں جہاں واضح رائے دینی چاہیے، وہاں پر بھی مکسڈ سی رائے دیتے ہیں۔ اب وہ چیف جسٹس بن گئے ہیں تو انہیں اپنے فیصلوں کا بوجھ اٹھانا ہی پڑے گا اور انہیں زیادہ کھل کر، واضح موقف لینا پڑے گا۔
کیا جسٹس آفریدی پیشکش مسترد کردیتے؟
بعض حلقے یہ بات کہہ رہے ہیں، گزشتہ روز سینیٹر حامد خان نے بھی یہ بات کہی، حامد وکلا کے ایک اہم اور بڑے دھڑے کے لیڈر ہیں۔ بعض دیگر آئیڈیلسٹ تجزیہ کاروں کی بھی یہ رائے ہے۔ ان کا خیال ہے کہ جسٹس آفریدی کو جسٹس عبدالحمید ڈوگر کے بجائے جسٹس بھگوان داس کی پیروی کرنی چاہیے۔
یاد رہے کہ پرویز مشرف حکومت نے جب چیف جسٹس افتخارچوہدری کو ہٹایا تو تب قائم مقام چیف جسٹس بھگوان داس نے عدلیہ اور چیف جسٹس کی سائیڈ لی اور فل کورٹ بنا دی جس کا بعد میں فیصلہ افتخارچوہدری کے حق میں آیا۔
کچھ عرصے کے بعد مشرف کی عائد کردہ ایمرجنسی اور پی سی او کے بعد جسٹس عبدالحمید ڈوگر نے حکومت کا ساتھ دیا اور چیف جسٹس بن گئے، تاہم انہیں بعد میں سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور جب پی سی او ججز فارغ ہوئے تو جسٹس ڈوگر کے خلاف بھی بہت کچھ کہا گیا اوراگرچہ وہ مدت مکمل کرکے ریٹائر ہوئے، مگر ججز اور وکلا برادری میں تنہا رہ گئے۔
میرے خیال میں یہاں صورتحال مختلف ہے۔ اس بار پارلیمنٹ نے دو تہائی اکثریت کے ساتھ آئینی ترمیم منظور کی ہے اور آئین کے مطابق پارلیمانی کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا ہے۔ اس ترمیم پر تنقید کی جاسکتی ہے، پارلیمانی کمیٹی کے اس فیصلے کو بھی مطعون کیا جاسکتا ہے، مگر بہرحال یہ سب کچھ آئینی اور قانونی ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ جسٹس آفریدی کا اس کھیل میں کوئی کردار نظر نہیں آیا۔ وہ کسی کیمپ میں تھے اور نہ ہی انہوں نے کوئی ایسی خاص پوزیشن اپنائی جس پر اعتراض کیا جاسکے۔ انہیں آئینی طور پر چیف جسٹس کی پیشکش ہوئی، جسے قبول کرنا چاہیے۔
جسٹس آفریدی کو چاہیے کہ وہ چیف جسٹس بنیں اور پھر اپنا آزادانہ کردار ادا کریں، آئینی بنچ بنانے میں اپنی دیانت دارانہ رائے دیں، عدلیہ میں تقسیم کا تاثر ختم کریں اور سب کو ساتھ لے کر چلتے ہوئے سائلین کو انصاف دیں، یہی عدالت کا کام ہے۔ ویسے بھی اگر جسٹس آفریدی نے انکار کیا تو یقینی طور پر یہ پیشکش جسٹس امین الدین خان کو کی جائے گی، تحریک انصاف اور ان کے حامی وکلا تنظیمیں یقینی طور پر یہ نہیں چاہیں گے۔ انہیں جسٹس آفریدی ہی سوٹ کرتے ہیں جن پر اثرانداز ہونا آسان نہیں۔ جو کسی بھی معاملے میں بڑا جرأت مندانہ اسٹینڈ لے کر منصفانہ فیصلے کرسکتے ہیں۔
کیا جسٹس منصور، جسٹس منیب مستعفی ہوجائیں؟
سوشل میڈیا پر یہ بات بھی کی جارہی ہے۔ یہ رائے غلط ہے۔ اس لیے کہ چیف جسٹس ایک انتظامی عہدہ ہے۔ کسی ساتھی جج کے چیف جسٹس بننے سے دیگر جج اس کے ماتحت نہیں ہوجاتے۔ عدالت عظمیٰ میں سب جج برابر ہیں، ایک جونیئر ترین جج کی رائے بھی چیف جسٹس کی رائے سے کمتر نہیں۔ آرمی کا معاملہ مختلف ہے۔ وہاں جو تھری اسٹار جنرل آرمی چیف بنتا ہے، اسے فور اسٹار جنرل بنا دیا جاتا ہے اور اسی وقت دیگر تمام جنرل اس کے ماتحت بن جاتے ہیں۔ اسی لیے اس سے سینیئر جنرل اگر سپرسیڈ ہوجائیں تو وہ اپنے سے جونیئر کے ماتحت بن جانے کے بجائے مستعفی ہوجانا پسند کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ میں ایسا نہیں۔ اب تو ویسے بھی چیف جسٹس اکیلا ماسٹر آف روسٹر نہیں، 3 رکنی کمیٹی ہی فیصلے کرتی ہے۔
جسٹس منصور اور جسٹس منیب اختر کو سپریم کورٹ میں کام کرتے رہنا چاہیے۔ جسٹس منصور کے پاس ساڑھے 3 سال کا عرصہ جبکہ جسٹس منیب اختر کے پاس 4 سال سے زیادہ وقت موجود ہے۔ وہ سپریم کورٹ میں کام کرتے رہیں۔ غیر سیاسی کیسز بھی کم اہم نہیں ہوتے۔ سیاسی اور آئینی امور سے ہٹ کر دیگر کیسز میں کسی مضبوط اور لائق جج کا ہونا نعمت سے کم نہیں۔
وکلا تحریکوں کا ممکنہ احتجاج
کیا وکلا احتجاج کریں گے؟ کیا وہ مشرف کے خلاف عدلیہ بحالی تحریک جیسی پُرزور اور پُرجوش عوامی احتجاجی تحریک بنا پائیں گے؟
بظاہر تو اس کا جواب ہاں میں دینا آسان نہیں۔ اس بار جو کچھ بھی ہوا، وہ آئینی ترمیم کے ذریعے ہوا اور تحریک انصاف کے سوا باقی تمام جماعتیں آن بورڈ تھیں۔ جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) بھی اسی ترمیم کا حصہ بنی۔ پرویز مشرف کے خلاف تحریک میں سب اہم اور بڑی جماعتیں اکٹھی تھیں۔ پرویز مشرف کے خلاف لال مسجد سے لے کر بلوچستان میں نواب بگٹی کی ہلاکت جیسے واقعات کا غم وغصہ بھی شامل تھا۔ بہت کچھ یکجا ہوا، مبینہ طور پر اندر سے بھی حمایت ملی۔
اب ایسا کچھ نظر نہیں آرہا۔ صرف تحریک انصاف ہی احتجاج کرے گی اور وہ شاید زیادہ موثر ثابت نہ ہوسکے؟ حامد خان کا وکلا گروپ ضرور احتجاج کرے گا، مگر یہ فیصلہ کن نہیں ہوسکتا۔ سپریم کورٹ بار، سندھ بار اور لاہور بار نئے چیف جسٹس کا خیر مقدم کرچکے ہیں، بتدریج دوسرے بھی کریں گے۔ البتہ وکلا تنظیموں کے الیکشن کا مرحلہ شروع ہورہا ہے، 4 بار مختلف سطحوں پر الیکشن ہوتے ہیں، ان میں یہ ایشو ضرور چلتا رہے گا۔ اس سے زیادہ شاید نہیں۔
تحریک انصاف کو کیا کرنا چاہیے؟
تحریک انصاف کو اب پلان بی یا سی یا ڈی یا جو بھی ان کے پاس متبادل پلان ہے اس طرف جانا چاہیے۔ اگر نہیں تو متبادل پلان سوچیں۔ اب فوری طور پر احتجاج یا جوڈیشل ایکٹوازم کے ذریعے حکومت نہیں گرائی جاسکتی۔ پچھلے چند ماہ میں جو کھیل کھیلا گیا، اس میں جو بھی وجوہات ہوں، مگر بہرحال تحریک انصاف کو بساط پر مات ہوئی ہے۔
عمران خان کی اسیری تحریک انصاف کے لیے بڑا مسئلہ ہے۔ پارٹی کو چاہیے کہ اپنے قائد کو باہر نکلوانے کا کوئی باعزت سیاسی طریقہ ڈھونڈے۔ ان کے رہنماؤں اور کارکنوں پر مقدمات ختم ہوں، وہ باہر آئیں اور پارٹی اپنی معمول کی سیاسی سرگرمیاں شروع کرے۔ انہیں موقع ملے گا، مگر اس کے لیے بہتر ہے کہ آزاد رہ کر انتظار کیا جائے نہ کہ جیلوں میں اسیر ہوکر۔